آج ہم اپنی قوم کی اجتماعی فکر پر بات کریں گے اور دیکھیں گے کہ ہم اجتماعی طور پر کس طرح حقائق کو دیکھتے ہیں
آغا وقار پانی سے کار چلنے کا دعوی کرتا ہے اور سارا ملک اس کا دیوانہ ہوجاتا ہے ۔ حتی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر جیسا سائنسدان بھی اسکی تعریف میں زمین آسمان ایک کردیتا ہے ۔ یہ جانتے ہوئے کہ ایسا ہونا تھرموڈائنمکس کے دوسرے لا کے خلاف ہے لیکن بغیر تحقیق کے سارا ملک ، میڈیا ، سیاستدان اس معجزے سے پاکستان کی ترقی کی منزلوں اور دنیا کی رہنمائ کرتا دیکھ رہے ہوتے ہیں
عمران خان اعلان کرتا ہے کہ سمند سے تیل نکل آیا ہے اور اب غیر ممالک سے لوگ نوکریوں کے لیے پاکستان آئیں گے اور پاکستان میں دولت کی ریل پیل ہوجائے گی۔ لیکن تیل نہیں نکلتا اور پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے تجربے تو سینکڑوں ہوتے ہیں اور ان میں کامیابی کا تناسب بہت کم ہوتا ہے
عمران خان دعوی کرتا ہے کہ میں آئ ایم ایف سے قرضہ نہ لونگا بلکہ خودکشی کرلوں گا ۔ انکے خیال میں جب میں اوورسیز سے اپیل کرونگا کہ وہ پاکستان میں رقم بھیجیں تو میری اس درخواست پر دولت کی اتنی ریل پیل ہوجائے گی۔ کہ پاکستان کو کبھی قرضہ لینے کی ضرورت ہی نہ ہوگی ۔ لیکن اپیل پر اس کے یہ خواب چکنا چور ہوجاتے ہیں
ایک فراڈیا رقم کو ڈبل کرنے کا فراڈ شروع کرتا ہے اور ڈبل شاہ کے نام سے مشہور ہوجاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس علاقے سے بینکوں سے رقم نکل جاتی ہے اور ہر کوئ دیونہ وار اپنی رقم ڈبل کروانے کے چکروں میں ہے ۔ اس میں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں کوئ اس بات کی تحقیق نہیں کرتا کہ وہ کس طرح رقم ڈبل کرتا ہے ۔ جس سے بھی پوچھو اس کے پاس کوئ نہ کوئ توجیح ہوتی ہے ۔ کوئ کہتا ہے کہ وہ کمپیوٹر پر کاروبار کرتا ہے ۔ کوئ کہتا ہے کہ اسکے پاس جنات ہیں اور کوئ کچھ اور دعوی کررہا ہوتا ہے ۔
آخر پولیس کاروائ کرتی ہے اور اسے گرفتار کرلیتی ہے لیکن لوگ پولیس کے ہی خلاف ہوجاتے ہیں اور اسے پہنچا ہوا بزرگ مانتے ہیں ۔
کچھ سالوں کسی دوسرے شہر میں ایک اور ڈبل شاہ نموندار ہوتا ہے اور اسی طرح عوام کو بے وقوف بناتا ہے ۔ لوگ پرانے ڈبل شاہ کو بھول کر اسکے دیوانے ہوجاتے ہیں اور وہی کہانی دوبارہ دہرائ جاتی ہے ۔
اب ایک شخص کی نااہلی اور انا پرستی اور خود ستاشی ثابت ہوچکی ہے اور ملک ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف جاچکا ہے لیکن عوام کو ایک اور خوش کن تصور دے دیا گیا ہے کہ وہ اس ملک کو آزادی دلا کر عظیم بنادے گا۔ اور عوام پھر اسکے پیچھے لگ گئ ہے اور یہ بھول گئ ہے کہ اس نے پہلے بھی اس طرح کے دلفریب وعدے کیے تھے اور پھر وعدے کرکے بھول گیا تھا
جب کسی شخص کو تابناک ماضی اور حق پر ہونے کی برین واشنگ کی جاتی ہے تو وہ ایک عظیم ماضی کے حصول کے لیے معجزوں پر انحصار شروع کردیتا ہے اور اس کا لوکس آف کنٹرول حقیقت سے دور تصوارتی ہوتا ہے اور یہی ہماری اجتماعی فکر ہے جو گاہے بگاہے دنیا کے سامنے آتی رہتی ہے