آرمی چیف صاحب آپ نے حال ہی میں ملک کے سرکردہ تاجروں سے ملاقات کی اور انکے مسائل سنے اور ان کے ساتھ اپنے تعاون کا یقین دلایا آپ نے انہیں کہا کہ ہم اس حکومت کو سپورٹ کررہے ہیں آپ بھی ملک کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہ بنیں اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔ آپ کی اس پاکستان کے شہریوں سے ملاقات نے مجھے حوصلہ دیا کہ میں بھی آپ سے کچھ بات کرسکوں امید ہے آپ میری اس جسارت پر ناراض نہیں ہونگے
آپ اداروں کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں ۔ آپ قانون کی بالادستی پر بھی بات کرتے ہیں ۔ آپ ملک میں امن قائم کرنا چاہتے اور ملک کی ترقی میں بھی مخلص ہیں ۔ اور اس سلسلے میں ہر ممکن کوشش کررہے ہیں
آپ نے آج تک جو کچھ بھی کیا ہے ۔ نیک نیتی سے کیا ہوگا اور ملک کی بہتری کے لیے کیا ہوگا ۔ مجھے آپ کی نیت پر کوئ شک نہیں
اس ملک کی سلامتی کی واحد علامت پاکستان آرمی کے سربراہ کی حیثیت سے آپ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کی ترقی اور مفادات کے لیے آپ کو ایکٹو رول ادا کرنا چاہیے ۔ مجھے اس پر بھی کوئ اختلاف نہیں
آپ اس ملک سے کرپشن کو ختم کرنے میں بھی مخلص نظر آتے ہیں لیکن کچھ ایسے لگ رہا ہے کہ احتساب صرف اپوزیشن کا ہو رہا ہے یا خصوصی طور پر ان لوگوں کا احتساب ہورہا ہے جو زیادہ ضدی ہیں چلیں اس میں بھی آپ کی کوئ حکمت ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ آپ ملک کی معاشی صورتحال کے بارے میں بھی پریشان ہیں اور معاشی صورتحال کی بہتری کے لیے بھی اپنی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں اور ساتھ ساتھ ہندوستان اور افغانستان سے متعلق ملکی مفادات کا بھی بہتر تحفظ کررہے ہیں مجھے آپ کی ان کوششوں پر بھی کوئ شک نہیں
مجھے آپ سے صرف ایک بات پر اختلاف ہے کہ پچھلے ستر سالوں سے آرمی چیف کی سیٹ کے ایکٹو کردار نے ملک میں قانون اور اصولوں کی ترویج کے بجائے ملک میں طاقت کے قانون کو فروغ دیا ہے ۔ ملک میں آمرانہ رویوں کو فروغ دیا ہے ۔ بلاشبہ آپ لوگوں کے لاشعور میں یہ بات ثبت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ پاکستان آرمی سب کچھ کرسکتی ہے ۔ لیکن خطرناک بات یہ ہے لوگ یہ بات ماننے کو اب تیار نہیں کہ ملک کے قانون کی بھی کوئ اہمیت ہے سب لوگ کسی بھی پریشانی میں صرف آپ کی طرف دیکھتے ہیں ۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ آپ کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن آخر کب تک ۔۔۔۔
اس یقین کا نقصان یہ ہوا ہے کہ ملک میں انصاف اور میرٹ نام کی چیز ناپید ہوتی جارہی ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون نافذ عمل ہے ۔ ہر کوئ اپنے مفادات کے لیے اس اصول کے مطابق عمل پیرا ہے ۔ وکیل حضرات اپنے گروپ کے مفادات کے لیے متحد ہیں ۔ اگر کوئ وکیل جج کو تھپڑ بھی ما ر دے تو اسکے خلاف کاروائ کی کسی کو جرات نہیں ہوتی ۔ انجینیرز ، بیوروکریٹ ، تاجر حضرات اور مل مالکان حتی کہ ڈاکٹر حضرات سب اپنے اپنے مفادات کے طاقت کے قانون کے تحت متحد ہیں اور اپنے کسی ممبر پر آنچ بھی نہ آنے دیتے ہیں ۔ چاہے اس سے کسی کا ناحق قتل بھی ہوجائے ۔
عوام سب سے نچلا طبقہ ہے ان کا کوئ گروپ نہیں ۔ نتیجے کے طور پر سب سے زیادہ استحصال بھی عوام کا ہوتا ہے ۔ سب سے کمزور طبقہ ہونے کا مطلب یہی ہے کہ یہ ہر ظلم چپ کر کے سہتے رہیں اور اس پر احتجاج کرنا بھی طاقت ور کی شان میں گستاخی تصور کیا جاتا ہے عوام کے لیے حالات پہلے سے ابتری کی طرف جارہے ہیں اور کوئ امید نظر نہیں آرہی ۔
مثال کے طور پر صحت کے شعبے کو ہی دیکھ لیں ۔ آئے روز ڈاکٹروں کی غفلت کی وجہ سے لوگوں کی جانیں جا رہی ہیں ۔کچھ روز پہلے ایک جاننے والے کی تیس سالہ بیوی سرکاری ہسپتال میں ڈلیوری کے آپریشن میں بروقت خون مہیا نہ کرنے پر فوت ہوگئ خود میرا سات دن کا بچہ ڈاکٹروں کی غفلت کی وجہ سے فوت ہوگیا اس طرح کے واقعات میں زیادہ تر قانون و قاعدے پر عمل نہ کرنےاور آمرانہ رویوں جیسی بنیادی وجوہات کا عمل دخل ہے ۔ اگر آپ کو اس بات پر کوئ شک ہے توکسی بھی ہسپتال کی انسپیکشن میڈیکل کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق کرلیں ۔ سب کچھ صاف پتہ چل جائے گا کہ ہسپتالوں میں کتنا قانون و قاعدے پر عمل کیا جاتا ہے خاص طور پر غریب اور دیہاتی مریضوں کے حقوق بری طرح پامال کیے جارہے ہیں ۔ یہی حال سارے ملک کا ہے ۔ ہر جگہ طاقت ، سفارش اور رشوت کا راج ہے ۔ میرا یقین ہے کہ اگر اس ملک میں قانون کا بالادستی پر عمل ہوتا تو نہ صرف میرے بچے کی جان بلکہ ہزاروں جانوں کو بچایا جاسکتا تھا
کاش آپ اپنا ایکٹو کردارپس پردہ صرف ملک میں قانون کی بالادستی میں ادا کرتے ۔ جس سے عوام کا یقین طاقت ک بچائے قانون اور اصول پر ہوجاتا تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ قوم دنیا میں کبھی بھی کسی بھی شعبے میں پیچھے نہ رہتی اور سب شعبوں میں خود ہی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیتی