اب تک کے شواہد تو اس بات کی نشاندہی کرہے ہیں کہ کرونا وائرس سے ان شہروں کو خطرہ ہے جہاں درجہ حرارت کم ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ کرونا وائرس ایسے شہروں میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے جہاں لوگوں کی خوراک اور رہن سہن مصنوعی یا دوسرے لفظوں میں جدیدیت کا حامل ہے ۔ جہاں خوراک میں فاسٹ فوڈ یا پروسیسڈ فوڈ کا رحجان ہے ۔ جہاں مصنوعی طریقوں سے بلڈنگ کے درجہ حرارت کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور جہاں کھلی ہوا یا روشنی کا بندوبست نہیں ہے ۔ سادہ لفظوں میں جہاں زندگی فطرت سے جتنی دور ہوگی وہ شہر اتنا ہی خطرے میں ہے ۔ کیونکہ یہ طرز زندگی انسانوں کے مدافعتی نظام کا بیڑہ غرق کردیتا ہے اور وہ بہت جلد اس کا شکار ہوجاتے ہیں اور وائرس کو پھیلنے کا پورا موقع دیتا ہے
آج تیس مارچ تک اگر آپ دنیا میں سب سے زیادہ کیسز والے ملکوں پر نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ سارے جدید اور ترقی یافتہ ممالک ہیں اور یہاں کے لوگ جدید لائف سٹائل کے حامی ہے اور یہاں درجہ حرارت بہت کم ہے مثال کے طور اس وقت تک امریکہ میں کرونا کیسز کی تعداد 144,280 ہے اور اکیلے نیویارک شہر میں کیسز کی تعداد 60,679 ہے ۔ دوسرے نمبر پر اٹلی ہے جہاں کیسز کی تعداد 97,689 ہے تیسرے نمبر پر سپین ہے جہاں کیسز کی تعداد 85,195 ہے ۔ چوتھے نمبر پر چاینا ہے جہاں کیسز کی تعداد 81,470 ہے اور پانچویں نمبر پر جرمنی ہے جہاں کیسز کی تعداد 63,929 ہے اور اسکے بعد دوسرے یورپی ممالک ہیں ۔ نیچے دیے گئے لنک سے آپ ان معلومات کو کنفرم کرسکتے ہیں
اس لحاظ سے پاکستان میں کراچی ، لاہور اور اسلام آباد اور دیگر صنعتی شہر خطرے میں ہیں جہاں یہ وا ئرس پھیل سکتا ہے ۔ لیکن دیگر شہر اور قصبہ جات جہاں روشنی ، ہوا کا فطری نظام ہے اور جہاں درجہ حرارت تیس ڈگری سے زیادہ ہے وہاں اس کے پھیلنے کے امکانات کم ہیں اس لے حکومت کو وہاں نارمل زندگی بحال کرنی چاہیے اور لاک ڈاؤن کو ختم کرنا چاہیے ۔ کرونا وائرس سے ہوسکتا ہے کچھ اموات ہوں لیکن یہ ان اموات کا عشر عشیر بھی نہیں ہونگی جو بھوک اور دیگر بیماریوں سے غریبوں کو ہونے جارہی ہیں ۔