• آج اسلام آباد ہائی کورٹ نے میاں نواز شریف کی پنامہ ٹرائل فیصلہ معطل کرنے کی درخواست کی سماعت کی۔ ججز کے خیال میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ میاں نواز شریف کو دفعہ 9(a)(4) کے تحت کرپشن، بددیانتی یا دھوکہ دہی سے جائیداد بنانے کے الزام میں بری کر دیا گیا ہے اور نہ ہی نیب نے اس پر اپیل کی ہے لہذا کرپشن کی حد تک نواز شریف کے متعلق معصومیت کا دوہرا مفروضہ پیدا ہو چکا ہے۔ نیب پراسیکیوٹر عدالت کی توجہ اس جانب دلاتے رہے کہ اپنی جائیداد کے ذرائع نہ بتا سکنا بھی نیب قانون کے تحت کرپشن ہی کا جرم کہلاتا ہے جس پر میاں صاحب کو سزا ہوئی ہے۔ اس پر بنچ کے ریمارکس تھے کہ وہ ایک قانونی مفروضہ ہے کہ اگر آمدن سے زائد جائئداد کے ذرائع نہ بتائے جا سکیں تو کرپشن فرض کر لی جائے گی تاہم براہ راست کرپشن کے متعلق جرم کی حد تک میاں صاحب کی بریت فائنل ہو چکی ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپیل کنندہ کرپٹ شخص نہیں۔ عدالت نے وکلا سے یہ سوال بھی کیا کہ پنامہ کیس سے قبل ایسا کوئی مقدمہ موجود ہے جس میں کرپشن کے الزام میں بریت کے باوجود آمدن سے زائد اثاثوں کو کرپشن قرار دے کر سزا سنائی گئی ہو۔ خواجہ حارث صاحب نے عدالت کو بتایا کہ پنامہ ٹرائل سے قبل ایسا کوئی کیس نہیں تھا بلکہ سپریم کورٹ نے غنی الرحمن کیس میں یہ طے کر دیا ہے کہ جب براہ راست کرپشن کا الزام ثابت نہ ہو تو آمدن سے زائد اثاثوں پر سزا نہیں سنائی جا سکتی۔
  • خواجہ حارث صاحب نے بنچ کو بتایا کہ نیب قانون کے تحت استغاثہ کو میاں نواز شریف کے خلاف ملکیت، اثاثے اور ذرائع آمدن دکھا کر آمدن سے زائد اثاثوں کا مقدمہ ثابت کرنا تھا جس میں نیب ناکام رہا ہے لہذا بار ثبوت میاں نواز شریف کی طرف منتقل ہی نہیں ہوا کہ ان سے منی ٹریل مانگی جاتی۔ خواجہ صاحب نےنیب گواہان کے بیانات پڑھ کر سنائے جس میں انہوں نے واضح طور پر تسلیم کیا کہ کوئی ایسا ثبوت یا گواہ نہیں ہے جو میاں نواز شریف کو براہ راست یا بے نامی یا اپنے زیر کفالت افراد کے ذریعے مذکورہ جائیدادوں کا مالک بتاتا ہو۔ اس پر بنچ نے سوال کیا کہ کیا کوئی ایسا قانون موجود ہے جس کے مطابق بچوں کی جائیداد کو والد کی جائیداد قرار دیا جا سکتا ہو جبکہ بے نامی جائیداد کا کوئی ثبوت نہ ہو۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے۔ بنچ نے استفسار کیا کہ فیصلے میں جج صاحب نے کس قانون پر انحصار کیا ہے تو خواجہ صاحب نے بتایا کہ کسی قانون پر انحصار نہیں کیا گیا بلکہ جج صاحب نے لکھا ہے کہ ’’چونکہ عمومی طور پر بچے والد کی کفالت میں سمجھے جاتے ہیں لہذا‘‘۔ اس پر بنچ نے خواجہ صاحب سے فیصلے میں سے مذکورہ صفحات اور سطور پڑھوائے اور ان کو نوٹ کیا۔
    خواجہ صاحب کی دلیل یہ بھی تھی کہ نیب کے کسی گواہ نے لندن فلیٹس کی قیمت تک نہیں بتائی جس سے ثابت ہوتا کہ کہ کیسے لندن فلیٹس ذرائع آمدن سے بڑھ کر تھے۔ اس پر بنچ کو شدید تعجب ہوا اور وہ بے یقینی سے پوچھنے لگے کہ کیا واقعی ایسا ہوا ہے جس پر خواجہ حارث نے نیب گواہ کا بیان پڑھ کر سنایا جس میں وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے لندن فلیٹس کی قیمت کا تعین نہیں کیا۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ اگر اثاثوں کی قیمت ہی نہیں معلوم تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ اثاثے آمدن سے زائد ہیں۔
    عدالت نے پندرہ تاریخ کو خواجہ صاحب کو دلائل کمل کرنے کا کہا ہے جبکہ نیب کے وکلا کو دلائل کے لئے سولہ اگست کی تاریخ دی گئی ہے۔
    احمد علی کاظمی
43