ایک غلط فہمی کا ہمیں ازالہ جلد کرلینا چاہیے کہ اس ملک میں آئین و قانون کی بالادستی نہ ہے حقیقت میں ملک میں طاقتور گروپوں میں اپنے سیاسی و معاشی مفادات کی لڑائ چل رہی ہے ۔ کسی کو بھی آئین و قانون کی بالادستی کی پریشانی نہیں ہے ۔
پہلے قانون کے رکھوالوں کے گروپ نے انتہائ دھشت گردانہ کام کیا اور ہسپتا ل پر حملہ کیا تو اس ساری زندگی قانون پڑھنے اور پڑھانے والوں نے اس پر عجیب طریقے سے اس قبیح فعل کی وضاحتیں دینا شروع کردیں اور عدالتوں میں ملک گیر احتجاج شروع کردیا ۔
اب عدلیہ گروپ نے سب سے طاقتور گروپ کے نمائندے پرویز مشرف پر ہاتھ ڈالا ہے تو اس گروپ کے حمائتیوں میں صف ماتم بچھی ہوئ ہے ۔ طرح طرح کی دلیلوں سے ثابت کیا جارہا ہے کہ ایک آرمی چیف کا بنیادی حق ہے کہ وہ جب مرٍضی آئین کے برخلاف حکومت پر قبضہ کرلے ۔ ان دلائل کی بھرمار سے تو ایسے لگتا ہے کہ پرویز مشرف نے تو بلکل آئینی حدود کے رہتے ہوئے حکومت پر قبضہ کیا تھا اور اتنے سال وہ تو آئین کی سربلندی کے لیے ہی تو کوشش کرتا رہاتھا اور ذلیل و خوار ہوتا رہا
اب پاکستان بار کونسل نے جسٹس وقار کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور کھلم کھلا آئ ایس پی آر کی پریس کانفرس کو غیر قانونی قرار دیا ہے ۔ لیکن دوسری طرف اس بات کو نظر انداز کردیا ہے کہ پیرا چھیاسٹھ پاکستان کے قانون کے مطابق غیر قانونی ہے ۔
جب کسی گروپ کے سیاسی و معاشی مفاد کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے تو وہ گروپ عدلیہ کی حمایت میں اسکے پیچھے کھڑے ہونے کا بیان دیتا ہے ۔ جب وہی عدلیہ اس کے مفادات کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو ملک و قوم کی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے اور ففتھ جنریشن وار کا حوالہ دے کر اپنی صفوں میں داخل دشمنوں کا قلع قمع کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے
آئین و قانون کی کسی کو پرواہ نہیں ۔ ہر گروپ اپنے سیاسی مفادات کی عینک لگا کر ہی اس کی تشریح کرنے میں لگا ہوا ہے ۔ باقی رہ گئے عوام ، نہ تو ان کا کوئ گروپ ہے اور نہ ہی کسی گروپ کو ان کے حالات کے بارے میں کوئ پریشانی ہے ۔ ہاں جب کسی طاقتور گروپ کو ضرورت ہوگی انہیں قربانی کے لیے یا چارے ک طور پر استعمال کرلیا جائے گا ۔