باجوہ صاحب اس وقت عوام کی اکثریت ملک کے موجودہ حالات کا ذمہ در کھلم کھلا اسٹیبلشمنٹ کو قرار دے رہی ہے ۔ اور سیاست دان تو دوسرے نمبر پر بھی موجود نہیں ۔ دوسرے نمبر پر عدلیہ کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے اور اس کے بعد تیسرے یا چوتھے نمبر پر سیاست دان ہیں ۔ میں یہ بات تین صوبوں مین شوشل میڈیا پر کیے گئے سروے کی بنیاد پر کررہا ہوں ۔
اور جب عوام سے ان مسائل کا حل پوچھا جاتا ہے تو عوام کی واضح اکثریت پہلے نمبر پر اسلام کو اور دوسرے نمبر پر آئین و قانون کا نفاذ کو اس کا حل قرار دیتی ہے یعنی کہ اسلام کے مطابق آئین و قانون کو موجودہ مسائل کا حل قرار دیتی ہے۔ سروے کے نتائج اس پیج پر شیر کیے گئے ہیںِ
خبروں اور تجزیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس بات کا اندازہ ہے اور وہ سول معاملات میں مداخلت سے پیچھے ہٹنا چاہتی ہے اور اپنے بارے میں تاثر کو درست کرنا چاہتی ہے۔ کیونکہ یہ بات انکے عمل پذیری پر خطرناک طریقے سے اثر انداز ہورہی ہے۔
پچھلے کئ دنوں سے ڈی جی آئ ایس آئ کے معاملے پر آپ اور عمران خان کے درمیان ٹکراؤ کی پوزیشن ہے ۔ میرا ماننا ہے کہ آپ کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں عوام میں پائے جانے والے منفی تاثر کو ختم کرنے کے لیے اپنے موقف سے پیچھے ہٹیں اور عمران خان یا سیاسی حکمرانوں کو طاقتور ہونے کا تاثر دیں اور آئین و قانون کی بالادستی پر عمل کریں ۔ تاکہ عوام میں اسٹیبلشمنٹ کے بارے منفی تاثر ختم ہو اور آئین و قانون کی بالادستی کا تصور قائم ہو ۔
جس طرح عوام میں اسلام کے نفاذ کے بارے میں جذبات پائے جاتے ہیں ۔ اگر اب آئین و قانون کی بالادستی کے بجائے صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ کے طاقتور ہونے کے تصور کو برقرار رکھا گیا ۔ تو سارے مسائل اسٹیبلشمنٹ کی ذمہ داری میں آئیں گے اور پھر ان جذبات کو طالبان جیسی قوتیں استعمال کرکے افغانستان کی طرز پر ملک پر قابض ہو نے کی کوشش کریں گی۔