تحریک انصاف کی سیاسی طاقت اوورسیز , شہری علاقوں کا پڑھا لکھا متوسط اور سول سرکاری اور ملٹری ملازمین کے خاندانوں کے اتحاد ہے ۔ جبکہ نواز شریف کی سیاسی طاقت سرمایہ دار اور کاروباری طبقہ ہے جو کہ اتنا تعلیم یافتہ نہ ہے اور پیپلز پارٹی کی سیاسی طاقت جاگیردار ، پیر اور سردار ہیں ۔ جہاں تک بات ہے اس ملک کی اکثریتی آبادی کی جو کہ غریب مزدور اور کسان ہیں ان میں ایک گروہ برادری ازم اور گروہی سیاست کا شکار ہیں اور اپنے علاقے میں بااثر شخصیات کے زیر اثر ہوتے ہیں اور دوسرا گروہ جو کہ نسبتا آزاد ہوتا ہے وہ وطن پرستی اور مذبی حمیت کے نام پر پروپیگنڈے کے زیر اثر ان تینوں پارٹیوں میں منقسم ہے
اس مضمون میں آگے جاکر ہم دیکھیں گے پڑھے لکھے مذکورہ خوشحال یا متوسط طبقے نے پاکستان کو کس طرح یرغمال بنایا ہوا ہے لیکن پہلے ہم انڈیا اور پاکستان کی جمہوریتوں کا تقابلی جائزہ لیں گے اور بڑھتی ہوئ جذباتیت اور انتہاپسندی کے اسباب پر نظر ڈالیں گے
کیا وجہ ہے پاکستان اور انڈیا اکٹھے آزاد ہوئے لیکن انڈیا معاشی و سیاسی ترقی کی طرف گامزن ہے اور ادھر جمیوریت مستحکم ہے جبکہ پاکستان میں جمہوریت آجتک پنپ نہ سکی ہے اسکی وجوہات دیکھتے ہیں
قیام پاکستان سے پہلے مسلم لیگ پرو اسٹیبلشمنٹ جماعت تھی جب کہ کانگریس اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت تھی ۔ اور اسی طرح مسلم لیگ کے رہنماؤں کا رہن سہن عوامی کے بجائے اپر کلاس یعنی انگریزوں کی طرز پر تھا ۔ یہ فرق آپ قائد اعظم اور دوسرے لیڈروں اور کانگریس کے رہنما جواہر لال نہرو اور گاندھی کے طرز زندگی میں دیکھ سکتے ہیں ۔
قیام پاکستان کے بعد کانگریس نے عوامی حکمرانی کا ماڈل اختیار کیا ۔ جاگیرداری کو ختم کیا اور مقامی کلچر ، زبان اور شناختوں کو فروغ دیا جب کہ اس کے برعکس مسلم لیگ کا طرز حکومت نوآبادیاتی طرز حکومت کا تسلسل ہی رہا ۔ صرف اتنا فرق ہوا کہ انگریزوں کے بجائے بھورے انگریز پاکستان کے حکمران بن گئے اس نو آبادیاتی طرز حکومت نے آجتک عوام کو غلامی جکڑا ہوا ہے
حمزہ علوی کے مطابق یو پی کا پڑھا لکھا طبقہ اور جاگیر دار پاکستان کے قیام میں زیادہ متحرک تھے اور پاکستان کے قیام کے بعد یوپی کے پڑھے لکھے طبقے نے بیوروکریسی پر قبضہ کیا اور سیاسی طور پر ملک پر قابض ہوگئے ۔ ان کا تعلق اس دھرتی سے نہ تھا اس لیے ایک بیگانگی کا عنصر انکی پالیسیوں میں واضح تھا اور اس طرح اپنے مفاد ہی میں پالیسیوں کو تشکیل دیا گیا ۔ اسکی ایک مثال بنگلہ دیش میں اردو کا نٍفاذ تھا ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بنگلہ دیش میں اردو کو نہ سمجھا جاتا ہے لیکن بنگلہ دیش کی اپنی مادری زبان کو تسلیم نہ کیا گیا اور اس باعث ملک تقسیم ہوگیا ۔ اسی طرح ُُ پاکستان کی اپنی مادری زبانوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اردو کا نافذ کیا اور اسکے اثرات یہ ہیں کہ آج پنجاب میں پنجابی گھروں میں بچوں کو پنجابی آتی ہی نہیں ہے ۔
جاگیرداری ، وڈیرہ شاہی اور قبایلی سرداری نظام قائم رہا اور انسانی آزادیون کا استحصال ہوتا رہا
ایک اور بنیادی نکتہ مسلمانوں کا لوکس آف کنٹرول ہے ۔ ایک مسلمان کے لیے یہ دنیا ایک عارضی جگہ ہے اور اصل زندگی آخرت ہے ۔ جس کے حصول کے لیے اسے اس دنیا کے بجائے آخرت کے لیے کوشش پر یقین ہوتا ہے ۔ اور ایک مسلم ذہن اپنی ماضی کی تاریخی عظمت اور خلافت پر یقین کیے ہوئے اور جمہوریت یا سائنس سے اسکی وابستگی نہ ہے ۔ اسکا ذہن نہ تو موجودہ زمانے کے امکانات پر فوکس ہے نہ ہی اسکے خطے سے منسلک ہے یعنی ایک مسلم کا لوکس آف کنٹرول حقیقی دنیا کے بجائے ایک ماورائ دنیا سے ہوتا ہے جب کہ اسلام کے ابتدائ دور کو دیکھا جائے تو مسلمانوں کو لوکس آف کنٹرول دنیا اور دنیا میں طاقت کا حصول تھا اور اس دور میں مسجد کا امام سب سے سیاسی طور پر طاقتور ہوتا تھا یعنی امام کا مطلب سیاسی طور پر سب سے طاقتور یعنی حکمران ہوتا تھا اور مسجد میں ہی سب دنیاوی مسائل حل کیے جاتے تھے ۔ جب کہ آجکل امام دنیاوی طور پر سب سے کمزور ہوتا ہے اور مسلمان مسجدوں میں پانچ وقت نمازیں تو پڑھتے ہیں لیکن مجال ہے اگر یہ نمازی کبھی اپنے علاقائ مسائل پر بیٹھ کر کوئ بات کریں چاہے انکے آس پاس جتنا مرضی ظلم ہوتا ہو
میرے خیال میں اس ملک میں صرف دو طبقے ہیں ایک ظالم طبقہ ہے جو غریبوں کا معاشی ، معاشرتی اور سیاسی استحصال کرتا ہے اور اس میں پڑھا لکھا خوشحال اور متوسط طبقہ سیاسی و معاشرتی طور پر سب پر حاوی اور احساس برتری کا شکار ہوکر ، اپنے آپ کو عقل کل تصور کرتے ہوئے پاکستان کے ٹھیکیدار بنا ہوا ہے اور دوسرا مظلوم طبقہ ہے جو کہ اس ملک کے غریب کسان اور مذدور ہیں ۔ جن کا استحصال کیا جاتا ہے ۔ کارل مارکس مادی دنیا کی بات کرتا ہے لیکن میں ہیگل کے نظریے کے مطابق مادی دنیا کے بجائے آیڈیا کی دنیا پر یقین رکھتا ہوں ۔ پاکستان جیسے معاشرے میں کارل مارکس کے مادی نظریے کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ یہاں ہیگل کےنظریے پر حقائق کو دیکھنا چاہیے کیونکہ یہاں رہنے والے انسانوں کا زندگی میں مقصد تصوراتی دنیا کا حصول ہے اور وہ اس عارضی دنیا پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی انہیں اس مادی دنیا میں اجتماعی ترقی میں کوئ خاص دلچسپی ہے ۔ آپ یہاں ہسپتال یا سکول کے لیے لوگوں سے فنڈ حاصل کرنے کی کوشش کریں تو اپ کو کچھ نہ ملے گا لیکن اگر آپ مسجد یا دربار کے لیے فنڈ کی کوشش کریں گے تو راتوں رات اس میں کامیابی حاصل ہوجائے گی ۔ آپ کسی بیمار یا غریب کی امداد کے لیے مانگیں گے تو آپ کو کامیابی نہ ملے گی جب کہ اگر آپ کسی مذہبی اشو پر فنڈ اکٹھے کریں گے تو آپ کی دل کھول کر مدد کی جائے گی۔ جب اکثریت کا لوکس آف کنٹرول مادی دنیا کے بجائے ایک تصوراتی دنیا کا حصول ہو تا پھر آپ کو پاکستان کے مسائل کو سمجھنے کے لیے ہیگل کو دیکھنا پڑے گا نہ کہ کارل مارکس کو
ایک پاکستانی جس کا لوکس آف کنٹرول غیر حقیقی ہے ۔ جس کی پرورش ایک استحصالی نظام میں ہوتی ہے جہاں نوآبادیاتی طرز پر اسکے ساتھ ایک غلام کے طور پر سلوک کیا جاتا ہے جو اس میں احساس کمتری اور غلامانہ سوچ کا باعث بنتا ہے اور جب وہ شخص باہر کسی یورپی ملک جاتا ہے یا کچھ اعلی تعلیم حاصل کرلیتا ہے یا سرکاری مشینری میں اعلی عہدے پر فائز ہوجا تا ہے یا معاشی طور پر اپر کلاس میں شامل ہوجا تا ہے یا وہ جاگیردار یا قبائلی سردار ہے تو ایسے ماحول میں پرورش ہونے کے باعث جہاں اصول و برابری و انسانیت کے بجائے اندھی طاقت کا راج ہو وہ اپنے لوگوں کو کمتر دیکھتا ہے اور احساس برتری کا شکار ہوتا ہے اور اپنے ملک کے مسائل میں اپنے آپ کو عقل کل تصور کرتا ہے
صدیوں کی غلامی اور جذباتیت اور ذہنی پس ماندگی کے ساتھ ساتھ شوشل میڈیا نے انتہاپسندی پھیلانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ شوشل میدیا میں صارف اپنے سرکل میں مقید ہوجاتا ہے اور انسانوں کے ساتھ انٹرایکٹ کے بجائے ایک مشین کے ساتھ اپنا زیادہ وقت گزارنے پر اس میں انتہاپسند اور انسانیت مخالف جذبات پرورش پاتے ہیں
اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے قیام سے لیکر آج تک اپنے ذاتی و گروہی مفادات کے لیے وطن کارڈ اور مذہب کارڈ کا بے دریغ استعمال کیا خصوصی طور پر ضیاالحق کے دور میں مذہبی انتہاپسندی کو فروغ دیا گیا اور معاشرے میں انتہاپسندی اور مذہبی شدت پسندی کے جذبات کو فروغ ملا
جمہوریت بھی انتہاپسندی اور جذباتیت اور ذہنی پس ماندگی کو فروغ دینے کا باعث ہے ۔ ساری دنیا میں جمہوری رویے تنزل کا شکار ہیں ۔ سیاسی جماعتیں اور رہنما اپنے مفاد کے لیے لوگوں کے درمیان تقسیم اور نفرت کو بڑھاوا دیتے ہیں جو کہ انتہائ نقصان دہ ہے
ویسے تو ساری قوم ہی جذباتیت اور انتہاپسندی کا شکار ہے لیکن انگریزیوں کے دیے گئے تعلیمی نظام سے نکلنے والے کچھ اضافی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں ۔ ہمارا تعلیمی نظام جس کی بنیاد انگریزی زبان یا دوسری غیر علاقائ زبان کو اپنی مادری زبان سے زیادہ اہمیت دینے ، غلامانہ ذہنیت پیدا کرنے، معاشرے میں کلاسز کی بنیاد پر تعصب پیدا کرنے پر ہے جس کی وجہ یہ اس نظام سے فیض یافتہ طالب علم یورپی اقوام سے احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور اپنے کسانوں اور مزدوروں کے بارے میں ان کا رویہ متکبرانہ اور احساس برتری والا ہوتا ہے اور یہ غیروں سے احساس کمتری کا شکار ہوکر ان کی نقالی کرنا شروع کردیتے ہیں اور اپنے لوگوں کے سامنے یہ اپنے آپ کو عقل کل تصور کرنا شروع کردیتے ہیں اور ہر کام میں یورپ کی مثال دیتے ہیں اور جب اپنی بات ہوتی ہے تو اپنے مفاد کے لیے یہ ہر قسم کے اصولوں سے اپنے آپ کو برتر تصور کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر مشرف کے خلاف وکلا کی تحریک کا بہت ذکر کیا جاتا ہے لیکن ان وکلا کا اپنے غریب اور کسان گاہگوں کے ساتھ برتاؤ دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ لوگ ان کا انتہائ استحصال کرتے ہیں اور ان کو اپنے برابر انسان تصور نہ کرتے ہیں ان کے واش روم اور کینٹین عام عوام سے علیحدہ ہوتے ہیں اور انکے ساتھ انکا رویہ متکبرانہ اور معتصبانہ ہوتا ہے ۔ یہی حال ٍڈاکٹروں کا ہئ وہ بھی عام عوام کے ساتھ انتہائ ذلت آمیز سلوک کرتے ہیں اور سرکاری ملازمین تو استحصال اور کرپشن میں سب سے آگے ہی یہ عام عوام یعنی غریب مزدور اور کسان پاکستان کی آبادی کا اسی فیصد سے بھی زیادہ ہے لیکن سیاسی طور پر ان کی طاقت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ یہ استحصالی طبقہ ہر جگہ قابض ہے اور اس اکثریت کو کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری موقع کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا ۔ یہ لوگ صحافت اور شوبز پر بھی قابض ہیں اور اچھے مواقع کی وجہ سے یہ اسٹیبلشمنٹ اور سول بیوروکریسی میں بھی قابض ہیں
یعنی کہ اس طبقے نے ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور عام کسان یا مزدور کی آواز سننے والا کوئ نہیں ۔جتنا استحصال اس طبقے نے اس اکثریت کا آجتک کیا ہے کہ اگر ان کو سیاسی طور پر میڈیا میں موقع ملے تو اس وقت چلنے والے سارے اشوز ہوا میں اڑ جائیں ۔ لیکن اس طبقے کی کوئ سیاسی طاقت نہ ہے جس کی وجہ سے انکا مقدر ذلیل ہونا ہی ہے
مندرجہ ذیل کمنٹس پڑھیں جو کہ ٹویٹر سے کاپی کیے گئے ہیں
Blunt
@Shinamuller
“برصغیر کی گھٹیا مینٹلٹی والی مڈل کلاس کی چیغیں سننے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے ۔ اس اربن آبادی نے شہروں کا ستیاناس کیا ہوا ہے ، ہر طرف گند ، آلودگی پھیلانے میں اسکا کوئی ثانی نہیں! گیس بجلی ، راشن سارا کچھ ہڑپ جاتی اور کسان مزدور کا ناصرف مذاق اڑاتی بلکہ انہیں انتہائی حقارت سے دیکھتی!
درسگاہوں سے لیکر ہسپتالوں تک ہر قسم کی اسے سہولیات اپنے گلی محلے کی نکڑ پر ملتی ہیں ، تھوڑی سی بھی کمی لگے تو چیخنا شروع کر دیتی ووٹ کے نام پر یہ اس کو ووٹ دیتی جو ان گھر کا کوڑا بھی خود ٹھکانے لگانے کا وعدہ کرے ۔ اس آبادی نے آج تک جو بیچارے بڑے شہروں میں نہیں رہتے ان کے لئےکبھی گلی کے کونے نکڑ پر درسگاہوں ، ہسپتالوں گیس بجلی کے کنکشنز پبلک ٹرانسپورٹ روزگار کا مطالبہ نہیں کیا!
ان کی گلی محلے میں جاکر دیکھو گھر کی صفائی غریب عورتوں کو دو تین ہزار روپے دے کر کرواتی اور گلی میں کوڑا پھینکوانا اپنا فرض سمجھتی !!
ان کو معلوم ہی نہیں ہے دور دراز کے دیہاتوں میں رہنے والی آبادی کس حال میں زندگی گزارتی ۔
اس کلاس کا تعفن دیکھنا ہے تو راولپنڈی کے نالہ لئی اور کراچی کے گجر نالے سے لیکر سمندر میں جو یہ گند پھینتکی وہ دیکھیں جاکر ، لاہور میں راوی کا حشر دیکھیں جو کر یہ خود کو پڑھی لکھی آبادی سمجھتی ۔ ان کو گلی محلے کی نکڑ پر درسگاہیں اور ہسپتال ، پبلک ٹرانسپورٹ دینے کا یہ صلہ دیا!”
یہ نواز شریف فیملی کی کرپشن یا اقربا پروری نہیں بلکہ یہ کلاس کا فرق ہے ۔ شریف فیملی یا بھٹو فیملی اس کلاس یا طبقے کی نمائندگی کرتی ہے جسے یہ طبقہ حقیر جانتا ہے اور یہ برداشت نہیں کرتا کہ یہاں کے مقامی لوگ ان پر حکومت کریں بلکہ وہ ایسے لوگوں کو اپنا حکمران دیکھنا چاہتے ہیں جن کا طرز زندگی یورپی یا امریکی ہو مثال کے طور پر کبھی جرنل مشرف اس طبقے کے پسندیدہ تھے اور اب عمران خان ہیں ۔ اور پیچھے جائیں تو قائد اعظم کا طرز زندگی بھی انگریزوں کی طرز پر تھا ۔ اس طبقے کے لیے یہاں کے مقامی حکمرانوں کو تسلیم کرنا بہت مشکل کام ہے ۔ چلیں ایک مثال کے ذریعے سمجھنے کی کو شش کرتے ہیں ۔ ایک امریکی جب آپ کے ملک میں سیر کرنے آتا ہے تو ایرپورٹ انتظامیہ سے لے کر عام شہری کا اس سے برتاؤ کا مشاہدہ کریں ۔ ہر کوئ اس کی چاپلوسی پر کمر بستہ ہوگا اس کے مقابلے میں جب ایک پاکستانی مزدور باہر سے اپنے ملک آتا ہے تو اس کے ساتھ ایرپورٹ انتظامیہ اور دیگر شہریوں کے سلوک کا مشاہدہ کریں ۔ اور یہ جانتے ہوئے کہ اس مزدور کے قیمتی زرمبادلہ سے ہی ملک چل رہا ہے ۔ یہ رویہ صاف طور پر غلامانہ ذہنیت اور احساس کمتری کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے اس طبقے کا مقامی رہنماؤں کی طرف رویہ تحقیر آمیز ہوتا ہے اور یہ اپنے آپ کو عقل کل تصور کرتے ہیں ۔
بلوچستان ، سندھ اور جنوبی پنجاب میں آج بھی چاگیردرانہ ، قبائلی نظام نافذ ہے اور لوگ آزادانہ طور پر فیصلہ نہ کرسکتے ہیں اور ظاہر ہے اس غلامانہ ماحول میں یہ طاقتور لوگ آگے آئین گے نہ کہ نظریاتی لوگ آگے آئیں گے اس لیے کسی بھی سیاسی پارٹی یا ورکر کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اکیلے نظریات یا اچھا بیانیہ آپ کو پاکستان میں حکومت نہیں دلاسکتا ۔ آپ کو ان سیاسی خاندانوں یا طاقتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا ۔ اس بات پر اعتراض کرنا کہ بلاول بھٹو کی کوئ سیاسی جدوجہد نہیں ہے یا اس بات پر اعتراض کرنا کہ شریف خاندان اقتدار اپنے خاندان ہی میں رکھتا ہے۔ بھائ یہ پاکستان کے سیاسی و معاشرتی حقائق ہیں آپ اس سے نظریں چرا کر یا ریجکٹ کرکے آگے نہیں بڑھ سکتے
یہ طبقہ ملک کو تجربہ گاہ بنانے پر تلا ہوا ہے ۔ چاہے صدر ایوب کو ون یونٹ یا بنیادی جمہوریت کا تجربہ ہو یا ضیا الحق کا غیر جماعتی انتخابات کا تجربہ ہو یا پرویز مشرف کا لوکل گورنمنٹ کا نظام ہو یا زبردستی اردو کو بنگلہ دیش پر قومی زبان کے طور پر مسلط کرنے کا تجربہ ہو جس سے ملک ہو ٹوٹ گیا اور اب یہ طبقہ ملک پر صدارتی نظام کا تجربہ کرنے پر تلا ہوا ہے ۔
کیا عمران خان کے دور میں سب سے زیادہ کرپشن کا انڈیکس نہیں بڑھا۔ آصل مسلہ ک احساس کمتری اور غلامانہ ذہنیت ہے اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والا طبقہ جسے عام لوگوں سے کوئ سروکار نہیں اور نہ ہی ان کو اپنے معاشرے کے معاشی، سماجی اور سیاسی حرکیات کا ادراک ہے وہ یورپ کی نقالی میں سب کچھ تہس نہس کرتے ہوئے ہر صورت میں مقامی نمائندوں کو اوپر نہیں آنے دیتا چاہتے اس مقصد کے لیے انہیں آئین و قانون کو پس پشت ڈالنا ہی کیوں نہ پڑے