جو معاشرے کے رویے ہیں ، افراد کے روئے ہیں، وہ گروپ اورینٹیشن کا شکار ہیں وہ طاقت کے نظام کے تحت ایک خاص طرح سوچنے پر مجبور ہیں تو ان حالات میں کوئی بھی پارٹی کوئی بھی گروپ انہی تعصبات کا شکار ہوگا
ایسے حالات میں ہر یونین ، ہر گروپ ، ہر پارٹی کی خواہش ہوگی کہ وہ طاقت کے نظام میں اپنا حصہ حاصل کریں اور اس کشمکش میں وہ دوسروں پر حاوی ہونا چاہیے گی اوراس حاوی ہونے کی کشمکش میں امن کا قیام بہت ناممکن بات لگتی ہے
: امن کا قیام صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ ملک میں رول آف لاء ہو ، سوسائٹی کے افراد کے کردار میں اصولوں کی پاسداری ہو،۔ ہمارا معاشرتی نظام ہمارا معاشی نظام اور ہمارا اخلاقی نظام اصولوں پر کھڑا ہو اور ہم میں قانون کی پاسداری کرنے کا جذبہ شدید ہو
ایک تو مذہب اور صدیوں کے بادشاہی نظام نے اور برادری ازم نے ہماری زندگیوں میں اصولوں کی اہمیت کو بہت دور کر دیا ہے اور دوسرا پاکستان کے قیام کے بعد پہلے بیوروکریسی نے پھر ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ایک گروپ کے طور پر اپنے آپ کو متعارف کراکے اور طاقت کا نظام قائم کرکے ہمارے معاشرے کے افراد کی کردار سازی میں اپنا حصہ ڈالا ہے جس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے ہے