سینیٹ میں 64 سینیٹرز کھڑے ہوکر تحریک عدم اعتماد کی تائید کرتے ہیں
by admin | Dec 21, 2019 | Uncategorized
-
سینیٹ میں 64 سینیٹرز کھڑے ہوکر تحریک عدم اعتماد کی تائید کرتے ہیں اور پھر کچھ ہی دیر بعد اپنے مردہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے 14 سینیٹرز مخالف امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں باقی پچاس رہ جاتے ہیں اور پھر ہار جانے پر احتجاج کے لیے دوبارہ 64 سینیٹرز اکٹھے ہوجاتے ہیں ۔
اپوزیشن کے امیدوار حاصل بزنجو سے اخباری رپورٹر اس بارے میں سوال کرتا ہے تو وہ اس معاملے میں خفیہ ایجنسی کے ملوث ہونے کا نام لیتے ہیں ۔
ابھی حال ہیں جج ارشد ملک(جس نے نوازشریف کو سزا سنائ تھی ) کی وڈیو نشر ہوتی ہے جس میں وہ بلیک میل ہونے کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں اور اس سے پہلے چیرمین نیب کے بارے میں ایک وڈیو لیک ہوتی ہے جس میں وہ مبینہ طور پر غیراخلاقی حرکات کرتے نظر آتے ہیں اور طیبہ فاروق پر بلیک میل کرنے کا الزام لگاکر اس جیل بھیج دیا جاتا ہے ۔
-
پاکستان کی تاریخ ایسی کہانیوں سے بھری ہوئ ہے جس میں لوگ بلیک میل ہوجاتے یا بک جاتے ہیں یا ڈر جاتے ہیں اور طاقت ور کے مفاد کے لیے اپنے ضمیر کو بیچ دیتے ہیں
۔
آج ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے کہ ہمارے لوگ کیوں بک جاتے ہیں یا بلیک میل کیوں ہوجاتے ہیں ؟
جمہوریت اور قانون کی بنییاد فرد ہے اور اس میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ فرد آزاد ہے جبکہ حقیقت میں ہماے سماج کی اکائ نہ تو فرد ہے اور نہ ہی فرد آزاد ہے ۔ ہمارے سماج کی بنیاد دیہات میں برادری یا قبیلہ ہے اور شہر میں یہ کسی حد تک یہ خاندان اور اسکے رشتے دار ہیں ۔ ہمارا ملک کے دیہات مکمل طور پر جاگیرداری یا قبائیلی سماج کے دور میں ہیں اور شہروں میں کسی حد تک سرمایہ داری سماج کا اثر ہے لیکن اس پر بھی جاگیرداری اور قبائیلی سماج کی چھاپ ہے کیونکہ زیادہ طر لوگ دیہات سے ہجرت کرکے شہروں میں آئے ہیں ۔ شہر ہو یا دیہات دونوں صورتوں میں لوگوں کی اورینٹیشن(orientation) اصول قانون و اخلاق پر عمل داری کے بجائےاپنے ذاتی و گروہی مفاد کے لیے طاقت کے حصول یا طاقت ور کی خوشنودی کی طرف ہے جو کہ واضح تضاد ہے جب تک اس تضاد کو ختم نہیں کیا جاتا بہتری کی صورتحال نظر نہیں آتی
-
عوام صدیوں سے غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں پہلے ہم پر بادشاہ حکومت کرتے رہے پھر اسکے بعد انگریز آگئے اور اسکے بعد آنے والی حکومتوں نے بھی استحصالی رویہ اختیار کیا اور انگریزوں والے استحصالی نظام کو جاری و ساری رکھا جس کی وجہ سے عوام ذہنی پس ماندگی کا شکار ہیں ۔ اور آزادانہ فیصلہ کرنے کا شعور نہ رکھتے ہیں ان استحصالی طاقتوں نے اپنے مفاد کے لیے اصول و قانون کے فروغ کے بجائے نفرت پھیلانے اور تقسیم کرو کی پالیسی اپنائ جس کے نتیجے میں ملک میں کرپشن اور انتہا پسندی کو فروغ ملا ۔ ذہنی پس ماندگی اور سیاسی، معاشی‘لسانی و مذہبی گروہی تقسیم کے ذریعے پیدا ہونے والی نفرت کی بنا پر لوگوں میں منفی رویوں کی تشکیل ہوئ
-
لوگوں کا قانون اور آئین پر رہا سہا اعتماد ختم ہوجاتا ہے اب وہ اپنے مفاد کے لیے یا اپنے مسائل کے حل کے لیے منفی طریقے اپناتے ہیں اور معاشرے میں کرپشن کے فروغ کا باعث بنتے اور غیر قانونی راستے اختیار کرتے ہیں ۔ آپ چھوٹے سے چھوٹے قانونی کام کے لیے سرکاری دفتر میں جائیں آپ کو کرپشن کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا حتی کہ عدالت میں بھی آپ بغیر رشوت کے اپنے فیصلے کی نقل حاصل نہیں کرسکتے
آپ تاجر ہیں یا سیاستدان یا سرکاری ملازم آپکی زندگی میں رشوت اور شفارش لازم و ملزم ہوجاتے ہیں اور انکے بغیر آپ اس سماج میں گزارہ نہ کرسکتے ہیں ۔
-
مذہبی اور سماجی طاقتوں نے بھی اس زوال میں اپنا حصہ ڈالا مرد اور عورت کے قانونی ملاپ کو مشکل بنا دیا ۔اس کی مثال ہے کہ ہمارے معاشرے میں بچیاں بوڑھی ہوجاتی ہیں اور انکی شادی نہیں ہوتی ، دوسرا اگر کوئ عورت طلاق یافتہ ہے یا بیوہ ہے ۔ اسکے لیے بھی سماج نے زندگی مشکل بنادیا اسلام کے شروع میں لوگوں کو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے یا لونڈیاں رکھنے کی آزادی ہوتی تھی لیکن اب ایسا ممکن نہ ہے نتیجا لوگ غیر اخلاقی حرکتوں میں ملوث ہوجاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک دنیا میں پورن دیکھنے والوں میں سب سے پہلے نمبر پر ہے
-
ہمارے ملک میں کامیاب ہونے کے لیے آپ کو جو اصول دیے جاتے ہیں ان میں رشوت ‘ شفارش ‘ طاقت ور کی خوشنودی اور اسکے مفاد کی تکمیل بنیادی شرط ہے ۔ چاہے اس کے لیے آپ غیر قانونی عمل ہی کیوں نہ کریں اور جب آپ اس معاشرے کے کامیاب ہونے کے اصولوں پر عمل پیرا ہوکر کامیاب ہوجاتے ہیں۔ تو اس وقت تک آپکے اندر ضمیر نامی کوئ چیز نہ رہتی ہے اور آپ کو آسانی سے خریدا جاسکتا ہے اگر کسی کا ضمیر بیدار بھی ہوجائے تو اس کے دامن پر قانون و اخلاق کے حساب سے بہت داغ لگ چکے ہوتے ہیں ۔ آپ کو وہ داغ دکھا کر بڑی آسانی سے بلیک میل کیا جاسکتا ہے سینیٹرز کی مثال ہی لے لیں ۔ سیاسی پارٹیوں نے انکو ٹکٹ کونسا میرٹ یا نظریاتی بنیادوں پر دیے تھے ۔ اسکے پیچھے بھی ان پارٹیوں کے کرتا دھرتاؤں کا ذاتی یا گروہی مفاد ہو تھا ۔ اور انکو سینیٹر بنانے کے پیچھے بھی رشوت یا شفارش کا کمال تھا ۔ اس کی مثال تو وہی ہے کہ جو بیجو گے وہی کاٹوگے
-
یعنی اس طرح کے ڈرامے اس ملک میں ہوتے رہیں گے جب تک ہم اجتماعی طور پر رشوت و شفارش کے خلاف جہاد نہیں کرتے اور اپنی زندگیوں کو اصولوں کے مطابق نہیں گزارتے ۔اور قانون کی عمل داری اور بالادستی کے لیے کوشش نہیں کرتے