شوشل میڈیا پر کافی پوسٹیں نظر سے گزریں جن میں وینٹیلیٹر کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا اور اسے ٹینک سے زیادہ اہم کہا گیا ۔ ان لوگوں کے لیے میں اپنا تجربہ شیئر کرنا چاہوں گا ۔ میرا بیٹا ایمان طاہر چھ روز تک وینٹیلیٹر پر رہنے کے بعد فوت ہوگیا اور میں نے اس دوران مشاہدہ کیا کہ پاکستان جیسے ملک میں وینٹیلیٹر پر پابندی لگانی چاہیے ۔ اگر کوئ ادارہ اعداد و شمار اکٹھے کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ پاکستان میں کسی بھی مریض کا دو دن سے زائد وینٹیلیٹر پر رہنے کے بعد بچ جانے کے امکانات دوسرے ممالک کی نسبت خطرناک حد تک کم ہیں ۔ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں ۔
١۔ یہاں وینٹیلیٹر پر ٹرینڈ ڈاکٹرز کی شدید کمی ہے
٢۔ وینٹیلیٹر پر ڈاکٹر کو مسلسل نگرانی کرنی ہوتی ہے اور اسے مریض کی حالت کے مطابق ایڈجسٹ کرنا ہوتا ہے ۔ لیکن یہاں افسر شاہی والا رویہ ہے اور ڈاکٹر نچلے عملے پر چھوڑ کر لاپرواہ ہو جاتے ہیں ۔ میرے کیس میں ڈاکٹر رات کو سو جاتا تھا ۔
٣۔ آکسیجن کی زیادہ مقدار بذات خود جسم کے اندر زہریلا مادہ Oxygen toxicity بناتی ہے جس سے مریض کو نقصان ہوتا ہے
٤۔ وینٹیلیٹر کی وجہ سے جسم کے اندر بھی انفیکشن ہوجاتی ہے جو اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہے اس لیے اس کے استعمال کے لیے انتہائ تربیت یافتہ عملہ اور ذمہ داری کا احساس چاہیے جس سے ہم پاکستانی بحثیت قوم مبرا ہیں اور یہی حال ہمارے ڈاکٹروں کا ہے اس لیے جب تک ہم تربیت یافتہ عملہ اور ذمہ داری کا احساس اور مانیٹرنگ کا نظام قائم نہیں کرلیتے اس کے استعمال میں پابندی لگانی چاہیے ۔ اور جان بچانے کے لیے دیگر ذرائع اختیار کرنے چاہیے ۔ اگر مریض کی زندگی ہے تو وہ بغیر وینٹٰیلیٹر کے بھی بچ جائے گا ۔ دوسری صورت میں وہ اس اذیت سے بچ جائے گا