• میں لیفٹ یا رائیٹ کے بجائے میں دنیا کو طاقت ور اور کمزور کی کشمکش کے طور پر دیکھتا ہوں ۔ انسان یا ہر جانور بنیادی طور پر خودغرض ہوتا ہے کیونکہ اس بنیادی صفت کی بنا پر وہ اپنا سروائیول کرسکتا ہےاس بنیادی صفت کی بنا پر وہ سب سے زیادہ اپنے ذاتی اور پھر اپنے گروہی مفادات کو ترجیح دیتا ہے اور اس کے لیے دوسروں کا استحصال کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ طاقتور ہمیشہ کمزور کا استحصال کرنا چاہتا ہے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا چاہتا ہے اور کمزور اپنے تحفظ کے لیے دفاع کرتا ہے اور اگر وہ اپنا دفاع اس طرح کرتا ہے کہ طاقتور کو نقصان پہنچنے کا خطرہ پیدا ہوجائے تو طاقت ور اسکے استحصال سے ایک قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے اور نئے طریقے سے اسکا استحصال کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ چاہے شکاری سماج ہو ، جاگیرداری سماج ہو یا سرمایہ داری سماج طاقت ور اور کمزور کی جنگ جاری ہے صرف استحصال کے طریقے بدلتے جاتے ہیں ۔
    صدیوں پر محیط مذہبی رویے ، کلچر ، جاگیرداری روایات اور بادشاہی نظام نے ہمیں ذہنی غلام بنادیاہے اور یہ ذہنی غلامی جینیٹکس(genetics) کے ذریعے ہم تک منتقل ہوچکی ہے ۔ ہم لاشعوری اور شعوری طور پر طاقت کی پوجا کرتے ہیں اور اپنے مفادات کے لیے طاقت کے نظریے پر عمل کرتے ہیں یعنی اپنے مفادات کے لیے بھی طاقت ہی کی طرف دیکھتے ہیں ۔ انگریز جاتے ہوئے ہمیں جمہوریت اور قانون کا تحفہ تو دے گئے لیکن ہم ارتقا کی اس منزل تک نہیں پہنچے جہاں معاشرہ جمہوریت اور قانون کی ضرورت محسوس کرے ۔ دنیا کی طرف سے ہم پر جمہوریت ‘قانون کے لیے دباؤ اور انگریزوں کی نشانی کے طور یہ چیز ہمارے گلے پڑ گئ ہے جس کے ساتھ ہمیں اب نباہ کرنا ہوگا ۔ کوئ بھی معاشرہ جو ارتقا کی اس منزل پر پہنچ چکا ہو جہاں اس کے لیے جمہوریت اور قانون کی بالادستی ضروری ہوجائے وہاں طاقتور اور کمزور طبقے میں ایک توازن قائم ہو چکاہوتاہے ۔ کمزور اپنے دفاع میں اس حد تک جاچکے ہوتے ہیں کہ طاقتور کا سروایول(survival) خطرے میں پڑجاتاہے اور اس کی پناہ گاہ صرف اور صرف جمہوریت اور قانون ہی ہوسکتے ہہیں جس کے ذریعے وہ نئے طریقوں سے کمزور کا استحصال کرنے کے طریقے ڈھونڈتا ہے
    اچھا ہمیں ایک نظام مل تو گیا ہے لیکن ابھی ہمارا کمزور طبقہ اس قابل نہیں تھا کہ وہ طاقتور کے لیے کوئ پریشانی کا باعث بن سکتا تو نئے نظام میں ایک خلا پیدا ہو جاتا ہے جب تک اس خلا کو پورا نہ کیا جائے اس نظام کا قائم رکھنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ اب پہلے تو جاگیرداروں یا سول بیوروکریسی نے اس خلا کو مدنظر رکھتے ہوے کمزوروں کا استحصال کیا ۔ پھر اسٹیبلشمنٹ اس میدان میں کود پڑی اور اس خلا نہ صرف پورا کیا بلکہ اپنے گروہی مفادات کے لیے اس خلاکو پر کرنے کے بجائے مذہب‘ دشمن اور وطن کے نام پر اس خلا کو مزید وسیع کیا تاکہ مستقبل میں بھی اپنے ذاتی و گروہی مفادات کی صحیح نگہبانی کی جاسکے جو کہ ایک فظری عمل ہے ۔
    اب انقلاب کے خواب دیکھنے والوں کے لیے کہ کوئ بھی انقلاب استحصال کا ادارہ یا شکل ہی بدلے گا ۔ کمزور کے استحصال کو کسی بھی صورت نہ روک سکے گا جب تک کمزور طبقہ اس قابل نہیں ہوجاتا کہ وہ اس خلا کو پر کرسکےاور اپنا دفاع کرسکے یعنی کہ اگر ہم کمزوروں کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے انقلاب کے خواہش مند ہیں تو ہمیں کمزور طبقے کو اس قابل بنانا ہو گا کہ اپنے حقوق کا دفاع کرسکے اس کے لیے نئ نسل کو تیار کرنے کی سٹریٹجی بنانی چاہیے کیونکہ صدیوں کی ذہن سازی اور عادتیں ایک دن میں نہیں بدل سکتی ۔ جب تک ہم معاشرے کو اس قابل نہیں بناتے کہ کہ وہ اس خلا کو پر کرسکے یعنی کہ حقوق کی پامالی پر طاقت ور کے لیے حقیقی خطرہ نہ بن سکے ۔ اس وقت تک ہم حقیقی انقلاب کی امید نہیں کرسکتے ہاں استحصال کرنے والےادارے یا چہرے ضرور بدل سکتے ہیں