پرانے دور کے وحشی سماج میں اور موجودہ سماج میں ایک بنیادی فرق ہے کہ پرانے دور کا سماج طاقت کی بنا پر فیصلے کرتا تھا اور موجودہ مہذب سماج(شوشلشٹ یا جمہوریت ) اصول کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے اور یہ اصول سارے سماج پر برابر لاگو ہوتے ہیں اس میں طاقتور اور کمزور کو نہیں دیکھا جاتا حالانکہ اس میں بھی خامیاں ہیں جس پر کام کیا جانا چاہئے ۔
میں ایک مثال کے ذریعے یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ کس طرح طرح سماج میں اصول انسانی زندگی میں خوشی اور سکون کا باعث بنتے ہیں
اکثر ہمیں مختلف مواقع پر لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے اور اگر کوئی لائن کو نہ توڑ رہا ہو یا ہمیں یہ نظر آ رہا ہو کہ ہماری باری اپنے وقت پر آ جائے گی تو ہمیں اتنی پریشانی نہیں ہوتی اور ہم آدھا گھنٹہ سکون سے انتظار کر لیتے ہیں لیکن اگر ہم یہ دیکھیں کہ کوئی ہماری لائن توڑ کر ہمارا استحصال کر رہا ہے اور متعلقہ عملہ اپنے لوگوں کو اولیت دے رہا ہے تو ہم پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں اور وہ آدھا گھنٹہ انتظار کرنا ہمارے لئے انتہائی اذیت کا باعث بن جاتا ہے اور یہ بے اصولی ہماری زندگی میں زہر گھول دیتی ہے اور اگر ہمیں روز اس طرح کے سلوک کا سامنا کرنا پڑے تو سماج کی زندگی پر یہ کس طرح اثر انداز ہوتا ہوگا اس کا اندازہ آپ خودکر سکتے ہیں۔ یعنی کہ اصول سماج میں خوشی اور سکون کا باعث بنتے ہیں۔ جنہیں ہم نے آئین و قانون کا نام دیا ہوا ہے
قانون کی حکمرانی دوطرفہ کوشش کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے
میکرو لیول پر حکمران طبقے کو اپنی پالیسی واضح کرنی چاہیے اور قانون کی حکمرانی کے لئے کوشش کرنی چاہیے لیکن ہمارے حکمران طبقے کی اپنی مجبوریاں ہیں اور وہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں اور نظر نہیں آرہا کہ وہ اس پر کوئی واضح پالیسی بنائے
مائیکرو لیول پر سماج کو اپنے رویے بدلنے ہوںگے اور قانون کی حکمرانی کے لئے خود کوشش کرنی ہوگی
ہم میں سے اکثر نے پی ٹی ایم ٫ پی ڈی ایم اور وکیلوں سے یا سول سوسائٹی سے قانون کی حکمرانی کے لیے امیدیں لگا رکھی ہیں لیکن میں ان سے مایوس ہو ں کیونکہ جب میں ان گروہوں کے اندر سماجی رویے دیکھتا ہوں تو اس میں برابری اور اصولوں کی حکمرانی نظر نہیں آتی۔
مثال کے طور پہ وکیلوں کا سائیلین کے ساتھ سلوک، مولونا فضل الرحمان کے مدرسوں میں انسانی حقوق کی صورتحال اور نون لیگ کا اپنے ورکر کے ساتھ سلوک، پشتون سماج میں عورتوں کے ساتھ سلوک اور اسی طرح دیگر گروہوں کے اپنے سماجی رویے قانون کی حکمرانی کی روح کی نفی کرتے نظر آتے ہیں ۔
اگر ہم قانون کی حکمرانی کے لیے کوشش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے سماجی رویے اور اپنے آپ میں تبدیلی لانا ہوگی پھر ہیں ہم اس مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ اور اس کام کی ابتداء ہمیں اپنے گھر سے کرنی ہوگی اور ہمیں اپنے گھر میں بیٹی اور بیٹے میں فرق کو ختم کرنا ہوگا اور برابری ، اصولوں کی بنیاد پر گھر کو جلانا ہوگا اسی طرح اپنے گروہوں میں برابری کی بنیاد پر اصولوں پر عمل کرنا ہوگا پھر ہی ہم قانون کی حکمرانی کیلئے کوشش کر سکتے ہیں وگرنہ اسی طرح بھول بھلیوں میں لگے رہیں گے