پڑھا لکھا متوسط شہری طبقہ اور ایلیٹ کلاس جسے میں انتہاپسند گروہ کا نام دونگا ۔ یہ انتہاپسند گروہ پاکستان میں اقلیت ہے اور زیادہ سے زیادہ پاکستان کی کل آبادی کا پانچ یا دس پرسنٹ سے زائد نہ ہے ۔ لیکن یہ گروہ اپنے آپ کو پاکستان کا اصل ٹھیکدار تصور کرتا ہے
انکے قول و فعل میں تضاد ہے ۔ اور یہ اپنے آپ کو حق پر تصور کرتے ہوئے اپنے انتہا پسندانہ رویے سے باقی اکثریت کو راہ راست پر لانا اپنی ذمہ داری تصور کرتے ہیں
یہ انتہا پسند طبقہ کم پڑھے لکھے یا دیہات کے لوگوں سے تعصب رکھتا ہے اور احساس برتری کا شکار ہے ۔ یہ یورپی ممالک کے مقابلے میں احساس کمتری کا شکار ہے اور انکی نقل کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ یہ انتہاپسند طبقہ وہاں کے کلچر اور طور طریقوں کو زبردستی اپنے ملک میں ہر صورت میں نافذ کرنا چاہتا ہے ۔ جمہوریت اور سیاست میں بھی یہ انتہا پسند طبقہ یورپ یا امریکی ماڈل کو یہاں نافذ کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ یہاں کی مورثی سیاست یہاں وڈیروں اور جاگیرداروں یا ذات پات کے سسٹم کو یہ انتہا پسند طبقہ ایک ہی دن میں ختم کرنا چاہتا ہے۔ اسے یہاں کے سیاسی حریکیات سے کو سمجھنے یا عوام کی شعوری سطح کو ترقی دینے میں کوئ دلچسپی نہ ہے ۔ اس انتہا پسند طبقے کو اس سے کوئ غرض نہیں کہ یہاں کی اکثریت اس کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے صدیوں غلامی کا شکار رہی اور ابھی بھی استحصال کا شکار ہے۔ آج بھی وکیلوں کے پاس یا ڈاکٹروں کے پاس یا سرکاری افسروں کے پاس جانے پر اس اکثریت کو دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے۔ اور اس اکثریت کا اس طرح استحصال کیا گیا ہے کہ یہ اکثریت اپنے سیاسی و معاشی حقوق سے دستبردار ہوچکی ہے ۔ اور اپنی بقا کی جنگ لڑرہی ہے ۔ اپنے سیاسی نظام کو غیروں کے مقابلے میں پرکھنے اور سب کچھ ستیاناس کرنے کے بجائے اپنے زمینی حقایق کو پرکھنے اور اس کے مطابق لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس اکثریت کو ایک ایسا ماحول دینے کی ضرورت ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور انہیں برابری کے حقوق حاصل ہوں اور جب تک ایسا نہیں ہوجاتا ۔ مورثی اور جاگیرداری یا ذات برادری پر ہونے والی سیاسی حرکیات کو برداشت کیاجائے ۔