ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملے پر ملک کے دونوں بڑے ڈیڈ لاک کا شکار ہیں۔فواد چودھری کا ٹویٹ آیا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملے پر کچھ ایشوز ہیں جن کو جلد حل کر لیا جائے گا۔
اس معاملے پر کیا بنتا ہے وہ تو آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا لیکن ایک چیز واضح ہے کہ دونوں بڑوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ ختم ہو چکا ہے۔اور ایک پیج کا تصور ریزہ ریزہ ہو چکا ہے۔
احسن اقبال کا بھی بیان آیا ہے جس میں انہوں نے فوج کی حمایت کی ہے اور عمران خان پر تنقید کی ہے
ہمارے ملک میں ایسا پہلی دفعہ نہیں ہو رہا طاقت کے ستونوں میں اس طرح کے ٹکراؤ ہر دوسرے تیسرے سال آتے رہتے ہیں اور ان کے نتائج ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کے سول معاملات میں مداخلت میں مزاحمت پر نواز شریف تین بار زیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جا چکے ہیں جس پر انہوں نے ووٹ کو عزت دو اور آئین کی بالادستی کی تحریک شروع کی ہوئی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان دن رات نعرہ تو آئین و قانون کی بالادستی کا لگاتے ہیں لیکن اپنے سطحی مفادات کے لیے اس کے برعکس عمل کرتے ہیں ۔
مسلم لیگ نون کا اس موقع پر خوشی سے بغلیں بجانا سمجھ سے بالاتر ہے
صا ف بات ہے کہ اگر وہ اپنے نظریے ووٹ کو عزت دو اور آئین کی بالادستی کا نعرہ لگاتے ہیں تو اس معاملے کو بھی آئین و قانون کی نظر میں دیکھنا چاہیے تھا
ڈی جی آئی ایس آئی کی اپوائنٹمنٹ وزیراعظم کرتا ہے اور چیف آف آرمی سٹاف اسے ایڈوائس دیتا ہے اس کا تو یہی مطلب ہے کہ جب تک وزیراعظم اپوائنٹمنٹ نہ کر لے اس خبر کو میڈیا پر نہیں آنا چاہیے تھا اور اسے میڈیا پر آئی ایس پی آر کے ذریعے ریلیز کرنا نہیں چاہیے تھا
نواز شریف کے دور میں بھی آئی ایس پی آر کا ریجیکٹڈ کا ٹویٹ آیا تھا جسے مسلم لیگ نون نے غیر قانونی و غیر آئینی قرار دیا تھا۔
اور اس تناظر میں مسلم لیگ نون اور دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی آئین و قانون کے مطابق واضح موقف اختیار کرنا چاہیے تھا
اس سے تو یہی واضح ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کا آئین و قانون کی بالادستی کا نعرہ ایک ڈھونگ ہے اور کوئی بھی سیاسی جماعت آئین و قانون کی بالادستی پر یقین نہیں رکھتی بلکہ وہ اپنے سطحی و وقتی مفادات کو دیکھ کر فیصلے کرتی ہے۔
ایک اور اہم سوال کے ہر دوسرے یا تیسرے سال ہماری طاقت کے ستون ٹکراؤ کی پوزیشن میں کیوں آ جاتے ہیں اور ڈیڈ لاک کا کیوں شکار ہو جاتے ہیں ۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ک ملک کے طاقتوروں نے سماج کی تربیت آئین و قانون کے بجائے طاقت کے نظریے پر کی ہے ۔جس کی وجہ سے ہمارا سماج اس وقت بھی جاگیر دارانہ سماج کی نوعیت کا حامل ہے
جاگیردارانہ سماج کی خاصیت یہ ہے کہ اس سے پرورش پانے والا ہر فرد اور ہر ادارہ اپنی نوعیت میں توسیع پسندانہ ذہنیت کا حامل ہوتا ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ آپ اپنے اردگرد دیکھیں تو ہر جگہ اس کی مثالیں ملیں گی
چاہے کوئی خاندان کا سربراہ ہو چاہے وہ ڈاکٹر ہو یا صحافی ہو یا وکیل ہو یا وہ اسٹیبلشمنٹ ہو یا کوئ سیاسی رہنما ہو اس کا رویہ اپنے کمزوروں کے ساتھ استحصالی ہوگا
آپ دیکھیں جب نوازشریف یا ذوالفقار علی بھٹو یا عمران خان اقتدار میں آتا ہے تو وہ ڈکٹیٹر بن جاتے ہیں۔
جب تک ہمارے طاقتور خود کو آئین و قانون کا پابند نہیں کرتے اور پاکستان کے سماج کی تربیت آئین و قانون پر نہیں کرتے۔ ہمیں اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا رہے گا۔
اس وقت ملک کے حالات انتہائی گھمبیر ہیں اب امریکہ کے پاکستان میں کوئی مفادات نہ ہیں اور اس کے مفادات انڈیا سے وابستہ ہیں تو اس نازک صورتحال میں امریکہ انڈیا کے مفادات کے لیے انڈیا کے ساتھ مل کر کر کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ساری دنیا اس وقت طالبان کے حمایتی ہونے کی وجہ سے ہم سے ناراض ہے
ایسے حالات میں ہمارے طاقت کے ستونوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور آئین و قانون کی بالادستی کو اپنے اوپر نافذ کرنا چاہیے آئے اور سماج کی بھی تربیت بھی آئین و قانون کی بالادستی پر کرنی چاہیے