جو کہ ایک صحت مندانہ سوچ نہیں یہ تو ایسے ہیں کہ جیسے ڈاکٹروں کا کام کسانوں کو سونپ دیا جائے اور کھیت ڈاکٹروں کے حوالے کردیا جائے
ہم میں سے کوئ بھی سائنس کی ایجادات کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کرسکتا ۔ ہماری موجودہ زندگی سائنس کی ایجادات کی مرہون منت ہے اور اب بھی ہم اس وائرس کے تدارک کے لیے سائنسدانوں کی راہ تک رہے ہیں ۔ سائنس حقیقت اور سچ کا دوسرا نام ہے اور سائنس کو جھٹلانے والے کی عقل پر ہی ماتم کیا جاسکتا ہے ۔ اس لیے حکومت کو سائنس دانوں اور ڈاکٹروں کی بات سننی چاہیے اور خاص طور پر پالیسی کی تشکیل میں یہاں کے حالات پر کی گئ ریسرچ کو سامنے رکھنا چاہیے ناکہ علما سے اس بارے میں رائے لے اور علما کے مشورے سے پالیسی تشکیل دے ۔
مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے محترم علما اس قابل ہیں کہ وہ موجودہ دور کے مسائل کےبارے میں کوئ رائے دے سکیں یا موجودہ مسائل میں عوام کی رہنمائ کرسکیں
میں نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور کے بارے میں پڑھا تو پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی نے مسائل کے لیے قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ انسانی فہم و فراست کو بھی ترجیح دی لیکن ہمارے علما انسانی فہم و عقل کے استعما ل کے خلاف نظر آتے ہیں اور ہر نئ ایچاد کو پہلے حرام قرار دے دیتے ہیں اور بعد میں حلال قرار دے دیتے ہیں۔ جس کی مثال یہ ہے کہ ماضی میں تین صدیوں تک پرنٹنگ پریس اسلامی دنیا میں حرام رہا لیکن آجکل یہ حلال ہے.
اسی طرح کی بہت سی دوسری مثالیں ہیں جس میں پمارے علما نے ہر نئی ایجاد کے حرام ہونے کے بارے میں فتوی دیا لیکن بعد میں اسے حلال قراد دیا اس میں قرآن پاک کا اردو میں ترجمہ، سپیکر سے اذان ، ریڈیو، ٹی وی حتی کہ ہوائ جہاز کے سفر پر بھی فتوی آگیا تھا
چلیں یہ سب تو ماضی کا حصہ ہیں ۔ کرونا وائرس سے پہلے کچھ علما تو پاؤں سے پاؤں ملا ئے بغیر نماز کا جآئز نہ مانتے تھے اور اسی بنا پر دوسرے فرقے کے پیچھے نماز کو باطل تصور کرتے تھے لیکن اب حکومت کی ہدائت پر آپس میں فاصلہ رکھ کر نماز پڑھ رہے ہیں۔
ایک اہم مسلہ جس پر مچھے آپ کی آرا چاہیے ہونگی وہ فطرانہ ہے ۔ فطرانے کی کم از کم مقدار گندم کے حساب سے ١٢٥ روپے مقرر کی گئ ہے جو کہ بہت کم ہے اور جب حکومت فطرانے کی مقدار مقرر کردیتی ہے تو ہر کوئ اسی حساب سے حساب کتاب کرتا ہے اور زیادہ مقدار کی طرف توجہ نہیں کرتا کیونکہ یہی انسانی فطرت ہے اس لیے علما کو اس کی کم از کم مقدار مقرر کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے اور اس کی مقدار اوسط پر ہونی چاہیے نہ کہ گندم کی مقدار پر
اشیا کی قیمتیں اور معشیت تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس حدیث کے مطابق اونٹ کی قیمتوں میں اضافے پر دیت کی رقم تبدیل کردی
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دیت کی قیمت ۱؎ آٹھ سو دینار ، یا آٹھ ہزار درہم تھی ، اور اہل کتاب کی دیت اس وقت مسلمانوں کی دیت کی آدھی تھی ، پھر اسی طرح حکم چلتا رہا ، یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا ، اور فرمایا : سنو ، اونٹوں کی قیمت بڑھ گئی ہے ، تو عمر رضی اللہ عنہ نے سونے والوں پر ایک ہزار دینار ، اور چاندی والوں پر بارہ ہزار ( درہم ) دیت ٹھہرائی ، اور گائے بیل والوں پر دو سو گائیں ، اور بکری والوں پر دو ہزار بکریاں ، اور کپڑے والوں پر دو سو جوڑوں کی دیت مقرر کی ، اور ذمیوں کی دیت چھوڑ دی ، ان کی دیت میں ( مسلمانوں کی دیت کی طرح ) اضافہ نہیں کیا ۔
(سنن ابن ماجہ Book 21, Hadith 2732)
اب فطرانے کی بات کرتے ہیں اس وقت کپڑا اور گندم کا باریک پسا ہو آٹا انتہائ نایاب چیز تھی ۔ خود حضور ﷺ نے ساری زندگی باریک پسے ہوئے آٹے کو روٹی نہ کھا ئ ۔ اس وقت اگر قیمتوں کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ خوراک میں آٹا سب سے مہنگا تھا اور کھجور سب سے سستی تھی لیکن ہیاں پاکستان میں تو آٹا سب سے سستا ہے اور کھجور مہنگی ہے اور چار کلو کھجور کے حساب سے فطرانہ سولہ سو روپے بنتا ہے۔ تو ہمارے علما کو دیگر ممالک کی طرح اوسط نکالنی چاہیے اور عقل کو استعمال کرنا چاہیے فطرانہ کی مقدار دو کلو گندم مقرر رکھنا کچھ غیر حقیقی نظر آتا ہے اور اس سے غریب جو فطرانہ کے حقدار ہیں انکی حق تلفی ہوتی نظر آتی ہے
فطرانہ کے متعلق احادیث کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں زیادہ تر جو اور کھجور کا ہی فطرانہ دیا جاتا تھا اور گندم کا حکم نہ تھا کیونکہ اس وقت یہ نایاب تھی اور بعد میں حضرت معاویہ کے دور حکومت میں جب گندم وافر مقدار میں پائ جانے لگی تو لوگوں نے قیمت کے حساب سے کھجور سے آدھا وزن گندم دینا شروع کردی ۔ ذیل میں اس بابت صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی احادیث پیش ہیں
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ فطر ایک صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو یا ایک صاع ”زبیب“ ( خشک انگور یا خشک انجیر ) نکالتے تھے ۔ پھر جب معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں آئے اور گیہوں کی آمدنی ہوئی تو کہنے لگے میں سمجھتا ہوں اس کا ایک مد دوسرے اناج کے دو مد کے برابر ہے ۔ Sahih al-Bukhari Book 24, Hadith 109
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے نافع کے واسطہ سے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو کی زکوٰۃ فطر دینے کا حکم فرمایا تھا ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر لوگوں نے اسی کے برابر دو مد ( آدھا صاع ) گیہوں کر لیا تھا
ahih al-Bukhari Book 24, Hadith 108
Sahih Muslim Book 12, Hadith 18
اب ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب جب کہ ہمارا طرز زندگی بلکل بدل چکا ہے اور جدید سائنس کی بدولت ہماری زندگی میں بہت تبدیلی آچکی ہے اور ہم ایسی ایجادات استعمال کرتے جن کا پہلے تصور نہ تھا تو کیا ہم کیا ہم احادیث کو آجکل نئ چیزوں پر اطلاق کرسکتے ہیں تو اس سلسلے میں مندرجہ ذیل حدیث ہماری رہنمائ کرتی ہے
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق سے فارغ ہوئے تو ہم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچنے سے پہلے نماز عصر نہ پڑھے لیکن جب عصر کا وقت آیا تو بعض صحابہ نے راستہ ہی میں نماز پڑھ لی اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ ہم بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچنے پر نماز عصر پڑھیں گے اور کچھ حضرات کا خیال یہ ہوا کہ ہمیں نماز پڑھ لینی چاہیے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ نہیں تھا کہ نماز قضاء کر لیں ۔ پھر جب آپ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر بھی ملامت نہیں فرمائی ۔
اس حدیث کی محدثین نے یہی تشریح کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی بھی فریق کی ملامت نہ کرنے کا مطلب ہے کہ دونوں فریقوں کا عمل قابل قبول ہے اگر کوئ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کے بجائے ان کے مقصد کی پیروی کرتا ہے تو وہ بھی قابل قبول ہے اور نئے مسائل میں حضرت عمر کا رویہ اسلام کے مقاصد کا حصول ہے
اسلام انسانی مساوات اور انصاف کو فوقیت دیتا ہے اس بات کو انسانی عقل و فہم سے پرکھیں تو مندرجہ ذیل باتیں خلاف اسلام نظر آتی ہیں اور ان پر پابندی لگی چاہیے
١۔ طبقاتی نظام جس میں امیر اورطاقت ور لوگوں کو ہر طرح سہولت دی جاتی ہے اور غریب کا بچہ نہ تعلیم حاصل کرسکتا ہے اور نہ اسے انصاف ملتا ہے
٢۔ بڑی گاڑیوں کا استعمال اورایرکنڈیشنڈ کا استعمال کیونکہ یہ ماحول میں ٹمپریچر بڑھا دیتا ہے اور غریب کی زندگی مشکل ہو جاتی ہے اور ماحول بھی خراب ہوتا ہے
میرے علم میں نہیں کہ کسی عالم نے طبقاتی نظام اور ایر کنڈیشنڈ کے استعمال پر سوچ و بچار بھی کی ہو ۔ اسکی بنیادی وجہ یہی کہ وہ دین میں بنیادی طور پر انسانی عقل و فہم کے استعمال کے خلاف ہیں جہاں کوئ چارہ نہیں ہوتا وہ اپنی عقل کو استعمال کرتے ہیں لیکن اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں
مثال کے طور پر قرآن میں دشمنوں کے لیے اپنے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم ہے لیکن ہمارے عالم اس کا اطلاق آجکل کی ضرورت کے مطابق جنگی جہازوں اور ٹینکوں پر کریں گے اور یہاں عقل کا استعمال جائز ہوگا
مثال کے طور پر نماز کے اوقات دن رات سورج کی پوزیشن اور رات پر مقرر کیے جاتے ہیں لیکن ہم اس کا اطلاق گھڑیوں پر کرتے ہیں اور سورج کو دیکھنے کی کبھی زحمت نہیں کرتے اور یہاں بھی عقل کا استعمال کرتے ہیں
مثال کے طور پر اذان اونچی آواز میں کہنے کی مثال ہے اور ہم اس کا اطلاق سپیکروں پر کرتے ہیں
مثال کے طور پر عمرہ اور حج کے دوران خانہ کعبہ کے طواف کا حکم ہے اور ہم اس کا اطلاق علیحدہ سے بنائ گئ منزلوں پر سفر کرکے کرتے ہیں اور اسی طرح سعی کے دوران صفا پہاڑی کے اوپر کھڑے ہوکر دعا مانگنے کی حدیث ہے(Sahih Muslim : Book 15, Hadith 159) لیکن اب کوئ پہاڑی پر جا ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کے ارد گرد جنگلا لگا ہوا ہے اور وہاں بھی عقل کا استعال کیا جاتا ہے اور اس کے قریب کھڑے ہوکر دعا مانگی جاتی ہے
ہم نہ جانتے ہوئے بھی کئ جگہ انسانی عقل و فراست کا استعمال کرتے ہیں
غزوہ خیبر کی فتح کے بعد جو زمین فتح ہوئ تھی وہ مجاہدین میں تقسیم ہوئ تھی لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی کے دور میں عراق کی زمین فتح ہوئ تو اکثریت نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی سے اسی طرح زمین تقسیم کرنے کا کہا لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالی نے امت کی بہتری کے لیے مجاہدین میں زمین تقسیم نہ کی حالانکہ صحابہ کی اکثریت تقسیم کے حق میں تھی اور چند صحابہ ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالی کے ساتھ تھے اس مثال سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن اور سنت کے ساتھ ساتھ ہمیں عقل و فہم کو بھی استعمال کرنا چاہیے اور اپنے زمانے کی ضروریات کو بھی دیکھنا چاہیے ۔ بلکل اسی طرح جس طرح ہم گھوڑے اور تیراندازی کی حدیث کو آجکل کے جنگی تیاری پر لاگو کرتے ہیں اسی طرح دیگر معاملات میں بھی عقل و فہم اور زمانے کی ضروریا ت کو مدنظر رکھنا چاہیے ورنہ دین اور دنیا دو علیحد ہ علیحدہ کناروں پر کھڑے نظر آئیں گے جس طرح آجکل ہورہا ہے کہ ھمیں مخصوص مواقع پر ہی اسلام کی ضرورت پڑتی ہے۔
بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں موجودہ دور کے مسائل کے حل کے لیے قرآن و سنت کے لفظی مفہوم کے ساتھ ساتھ ان احکامات کے مقصد کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے
Origins of Islam’s crises