ہم میں سے کچھ عمران خان کو سپورٹ کرتے ہیں ۔ کچھ نواز شریف کی ساتھ ہیں ۔ کچھ فضل الرحمن کے مزاحمت اور موقف پر قربان ہوئے جاتے ہیں ۔ اور کچھ دوستوں کو پیپلز پارٹی میں اپنے خواب کی تکمیل نظر آتی ہے ۔ حالانکہ یہ سب استحصالی قوتیں ہیں ۔ اور عوام اور جمہوریت کے خیرخواہ نہیں ۔ کبھی اپنے آپ سے سوال کیچیے گا کہ
کیا نواز شریف کی حکمرانی کا ماڈل شخصی حکمرانی نہیں ۔ کیا انہوں نے اپنی پارٹی میں جمہوریت قائم کی ۔ کیا انہوں نے اپنے سیاسی ورکر کو اوپر لانے کی کوشش کی ۔ کیا وہ فیصلہ سازی میں اپنے مالی مفادات کا خیا ل نہیں رکھتے ہونگے
کیا آصف زرداری کرپشن اور اقربا پروری کا قائل نہیں ۔ کیا آصف زرداری نے اپنی پارٹی میں جمہوریت قائم کی ۔ کیا سندھ جہاں عرصے سے انکی حکومت ہے انہوں نے دیہاتی عوام کی سیاسی آزادی اور تعلیم کے لیے انقلابی کام کیا ؟
کیا فضل الرحمن مدرسہ میں پڑھنے والے طلبہ کو سیاسی و جمہوری آزادی دینے کے قائل ہیں کیا وہ اپنے ادارے میں سیاسی و آئنی حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن وہ دھرنے میں آئین کی بالادستی کا مطالبہ کررہے ہیں اور جمہوریت کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار نظر آتے ہیں
کیا عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے بل بوتے پر اقتدار میں نہیں آئے ۔ ۔ کیا عمران خان اپنی پارٹی میں جمہوری رویہ رکھتے ہیں یا ان اپنی من مرضی کرتے ہیں ۔ کیا عمران خان سنی سنائ بات پر رائے قائم نہیں کرلیتے کیا
۔ کیا وہ اپنے لیے وہی اصول اپناتے ہیں جو دوسروں کے لیے بناتے ہیں ؟
بات یہ ہےکہ ان قوتوں کے آپس کے ٹکراؤ میں عوام کا فائدہ ہو سکتا ہے اور ملک میں رول آف لا بحال ہوسکتا ہے ۔
ہمیں شخصیت پرستی کرنے کے بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ اس وقت آئین کی بالادستی کی کون بات کررہا ہے اور صرف اسے ہی سپورٹ کرنا چاہیے جو اپنے رویے اور کردار سے ثابت کرے گا کہ وہ اس مقصد کے لیے مخلص ہے ۔ چاہے وہ فضل الرحمن ہو یا عمران خان ہو یا مریم نواز یا بلاول بھٹو ہو ۔۔