یہ بات حقیقت لگتی ہے کہ اس ملک پر تین الف حکومت کر رہے ہیں ۔ امریکہ ، اسٹیبلشمنٹ اور اللہ لیکن نائین الیون کے بعد اب صورتحال میں تبدیلی آئ ہے ۔ اب امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ مذہبی طاقتوں کاحق حکمرانی میں حصہ ختم کرنے پر متفق ہوچکے ہیں امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ اس بات پر متفق ہیں کہ مذہبی طاقتوں کو سائیڈ لائن کیا جائے اور اسی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے مذہبی طاقتوں کو کمزور کرنے کی پالیسی پر عمل جاری ہے ۔ لیکن مصیبت یہ آپڑی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے سطحی مقاصد کی تکمیل کے لیے وقتی طور پر مذہبی طاقتوں کے استعمال نے اور جدید دنیا میں کمیونیکشن انقلاب نے ان مذہب طاقتوں کو اپنی طاقت کا ایک نیا احساس دلایا ہے ۔ دھرنے کے دوران اور بعد میں توہیں رسالت پر ملک جام کرکے انہیں یقین ہوگیا ہے کہ مذہب کے نام پر بننے والے ملک میں وہ ایک طاقت ہیں جس کا ملک میں دوسرا کوئ متبادل نہیں ۔ اور وہ اس ملک کے اصل حکمران ہیں ۔ یہی وہ سوچ تھی جس کے تحت فضل الرحمن سینہ ٹھوک کر سامنے آجاتا ہے اور اندازہ لگائیں کہ کیا صورتحال ہوگی جب خادم رضوی بھی ١٢ ربیع الاول کو ساتھ مل جاتے ہیں ۔اور سب مل کر اسٹیبلشمٹ کا حق حکمرانی اپنے نام منتقل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں