فوجی دماغ
—–
میرے والد صاحب 1971ء سے 1984ء تک پی اے ایف بیس مسرور میں خطیب رہے، اس زمانے میں پابندی کے ساتھ ہر سال بیس پر “سیرت کانفرنس” منعقد ہوتی، غالباََ 1980ء میں سیرت کانفرنس ہونے لگی تو سرکاری اجلاس میں طے کیا جانے لگا کہ بیس کے باہر سے کس بڑے عالم کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا جائے، والد صاحب نے مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا نام تجویز کیا جو منظور کر لیا گیا۔
کانفرنس کے دوران ڈائس پر مولانا اور بیس کمانڈر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے، بیس کمانڈر نے مولانا سے اظہار تشکر کے طور پر سرگوشی میں کہدیا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ بہت بڑے عالم اور شیخ الحدیث ہیں، مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ ہماری دعوت پریہاں تشریف لائے ہیں۔ مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے فرمایا، مجھے بھی یہاں آکر بہت خوشی ہوئی ہے، باقی سچ یہ ہے کہ میں کوئی بڑا عالم یا شیخ الحدیث نہیں ہوں بلکہ ایک ادنی سا طالب علم ہوں۔
کانفرنس کے اگلے روز بیس کمانڈر نے والد صاحب کو طلب کر لیا اور کہا، تمہاری جرات کیسے ہوئے سرکاری تقریب میں ایک طالب علم کو مہمان خصوصی بنوانے کی، والد صاحب سٹپٹا کر رہ گئے کہ یہ کیا کہا جارہا ہے، انہوں نے بیس کمانڈر سے پوچھا، کونسا طالب علم ؟ بیس کمانڈر نے کہا وہ سلیم اللہ خان جو رات کو یہاں تقریر کر کے گیا ہے، والد صاحب نے لاکھ سمجھایا کہ سر وہ بہت بڑے شیخ الحدیث ہیں لیکن بیس کمانڈر ایک ہی بات کہتا، “انہوں نے خود مجھے کہا کہ “سچ” یہ ہے کہ میں ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں”۔۔۔
خلاصہ یہ کہ والد صاحب کے خلاف ایک انکوائری کمیٹی بنادی گئی جو یہ تحقیق کرے کہ آنے والا، طالب علم سلیم اللہ خان تھا کہ شیخ الحدیث سلیم اللہ خان۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اہل علم خود کو از راہ انکسار “طالب علم” کہتے ہیں اور آنے والے مہمان نے بھی ایسا ہی کیا، فی الحقیقت وہ ایک بڑے شیخ الحدیث ہی ہیں۔ بیس کمانڈر نے رپورٹ پڑھنے کے بعد کہا، میں انکسار ونکسار نہیں جانتا سیدھی طرح کہو کہ شیخ الحدیث نے مجھ سے غلط بیانی کی۔
میں جب بھی ٹی وی چینلز پر ریٹائرڈ جرنیلوں کو سویلین امور میں “ماہرانہ” رائے دیتے دیکھتا ہوں تو مجھے 1980ء کا وہ فوجی دماغ ضرور یاد آتاہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔
رعایت الله فاروقی .