ستم ظریفیوں کی والدہ ۔۔۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ ہمارے اداروں کی بجائے برطانیہ کے ادارے ملک ریاض کے سات سوپچاس ملین پاونڈ کے ناجائز اثاثے پکڑنے میں کامیاب رہے جن میں سے ایک سو نوّے ملین پاونڈ برطانیہ کے قانون کے باعث بن مانگے پاکستان کو لوٹائے جائیں گے، زرداری کے باہر موجود ساٹھ ملین تو آپ کو یاد ہی ہونگے، جن کے باعث ہم بیس سال سُنتے رہے سیاستدان چور ہوتے ہیں، ملک لُوٹ کر کھا گئے، ویسے وہ ساٹھ ملین بھی ہمیں نہیں ملے تھے ان سات سوپچاس ملین میں سے ایک سو نوّے بن مانگے مل رہے ہیں لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ پی ٹی وی اتنی بڑی خبر چلانے کو بھی تیار نہیں،
کوئی حکومتی وزیر بھی قوم کو اتنی بڑی خوشخبری نہیں سنانا چاہتا کہ تاریخ پاکستان کی سب سے بڑی لُوٹی رقم کا ایک حصہ خوُد دروازہ بجا کر گھر واپس آ رہا ہے۔
ستم ظریفیوں کی والدہ یہ ہے کہ چوروں سے سانپ اور نیولے جیسی چپکلِش رکھنے والے کپتان خان بھی یہ کہنے کو تیار نہیں کہ ہم تو سارے کے سارے لُوٹے پیسے یعنی سات سو پچاس ملین پاونڈ وطن واپس لائیں گے۔
آپ کے ذہن میں سوال اُٹھے گا کہ ایسا کیوں بھائی۔
بھولے بادشاہو، یہ وہی ملک ریاض ہے جنرل باجوہ کے بیٹے کا بدنامِ زمانہ سُسر میاں مٹھو جِس کا داہنہ ہاتھ اور بزنس ایسوسی ایٹ ہے، پاکستان میں کس کی مجال ہے اس لکشمی دیوی کو ہاتھ لگائے،
ہم اُس ملک ریاض کی بات کر رہے ہیں جو باجوہ کے سمدھی سے پہلے جنرل کیانی کے بھائی کا بھی بزنس ایسوسی ایٹ تھا، وہی ریاض جو زرداری کا خاص الخاص کاروباری رفیقِ بھی تھا، جسکے لیے سندھ میں سرکاری زمین کوڑیوں کے بھاو نیلام۔کر دی گئی تھی۔
جی ہاں ہم اُسی ملک ریاض کی بات کر رہے ہیں جو نواز دور میں فوج اور نواز کے درمیان مصالحت کار کے اپنے کردار کے باعث ان ٹچ ایبل تھا، نواز دور میں تو بیسویں سکیل کی بھی کوئی پوسٹنگ ملک ریاض کی منظوری کے بغیر نہیں ہوتی تھی۔
خُود ہی سوچیے ایک ایسا آدمی ایک وقت میں جِس کے ذاتی تنخواہ دار ملازموں میں گیارہ جرنیل، باون برگیڈئیر اور سینکڑوں کرنل شامل ہوں پاکستان میں اُس سے تفتیش ویسے بھی کِس مائی کے لال کی بساط میں ہے۔ یہ تفتیش واقعی ایک کافر انگریز مُلک میں ہی ہو سکتی تھی۔
ویسے ملک ریاض ایک بھی ٹاون بنانے میں کامیاب نہ ہوں اگر باجوہ صاحب کا سمدھی المعروف میاں مٹھو اُسکی پسندیدہ زمینیں زمینوں کے جدی پُشتی مالکان سے پاک کر کے بحریہ ٹاون کو نہ دیا کرے،
ملک ریاض تو فرنٹ پر ہونے کی وجہ سے ویسے ہی بدنام ہے، اُسکا ریئل اسٹیٹ کے اپنے کاروبار میں اتنا حصہ نہیں جتنا دیگر چار پردہ نشینوں کا ہے،
لیکن یہ سچ ہے کہ یہ چار بڑے ستُونوں کی چھت ہونے کی وجہ سے پاکستان کے چند طاقتور ترین افراد میں سے ایک ہے۔
زرداری نے ملک ریاض سے پندرہ گُنا کم رقم کی کرپشن میں گیارہ سال جیل میں گزارے، کسی کے باپ کی جرات ہے تو کرے ملک ریاض کو گرفتار جبکہ جرم یوکے میں ثابت بھی ہو چکا، اقرار جرم بھی ہو چکا۔
کاش برطانیہ اپنے کسی اور قومی مفاد میں شریفین جرنیلوں، پی پی پی اور پی ٹِی آئی سمیت دیگر جماعتوں کے لیڈرز یا اُنکے بچوں کے اپنے ملک میں موجود اثاثوں کی بھی چھان بین کرنا شروع کر دے کیونکہ اگلی چند دہائیوں میں بھی مُلکی ادارے تو کسی سیاستدان سے ایک روپیہ بھی نہیں نکلوا سکیں گے۔
حقیقی ستم ظریفی یہ ہے کہ اب جبکہ برطانیہ میں نہ صرف یہ ثابت ہو چکا کہ ملک ریاض نے پاکستان سے وہاں ناجائز رقم غیرقانونی طریقوں سے بھیجی ہے بلکہ اُن میں سے کچھ پیسے پاکستان کو مل بھی رہے ہیں، پاکستان میں ملک ریاض پر کوئی قانونی مصیبت نہیں آنے کی۔ ہمارے ہاں قانون طاقتور کی رکھیل جو ہے۔
یہ البتہ ضرور ہو سکتا ہے کہ ملک ریاض پاکستانی عدالتوں میں بیٹھے اپنے دلّالوں کے ذریعے یُوکے سے آئے ہوئے پیسے بھی واپس لے لے،
کسے شک ہے کہ ہماری عدالتیں بہرحال امیر کی داشتائیں ہیں۔
سانحہ ساہیوال کے مقتولین، ماڈل ٹاون کے مظلوم، نقیب کا لاچار والد اور صلاح الدین جیسے بے بس مظلوم تو پاکستانی نظام انصاف سے تحریکِ انصاف کے دور میں بھی انصاف کا الِف بھی حاصل نہیں کر سکتے، الف ہوتا جو ایک ڈنڈا ہے اور بدکردار ریاستوں میں ڈنڈا ہمیشہ دولت مند کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
پھر بھی میں کہوں کہ مجھے پاکستانی شناخت سے گھِن آتی ہے تو ہر میراثی اپنے گلے میں پڑا حُب الوطنی کا ڈھول پیٹنے لگتا ہے۔
یعنی ہمارا حقیقی مسئلہ بُت پرستی ہے، لوگ وطن کے مالکان کو معبود نہ سمجھتے ہوتے تو کیا وجہ تھی جو انہیں نیست و نابُود نہ کر دیتے۔۔۔ محمد رضوان خالد چوھدری