اس میں کوئ دوسری رائے نہیں کہ وزیراعظم پاکستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے موقف کو بہت اچھے طریقے سے پیش کیا ۔ بلخصوص انڈیا کو اس معاملے میں بیک فٹ پر کردیا ۔ اور اس بات میں بھی کوئ شک نہیں کہ اس سے پہلے پلوامہ حملے کے بعد بھی وزیراعظم پاکستان نے اپنے آپ کو اچھے طریقے سے پیش کیا اور پاکستان کے بین االاقوامی تشخص کو بہتر کیا
لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وزیراعظم نے ملک کے اندر تقسیم ‘ تنگ نظری، نفرت ، ناانصافی ، ظلم ، غربت اور بے روزگاری کو فروغ دیا ہے ۔
پاکستان سے باہر پاکستان کی شناخت سے متعلق معاملات میں گورمنٹ نے متاثر کن کردار اداکیا ہے لیکن پاکستان میں عوام کے متعلق معاملات میں یہ کارکردگی انتہائ ناقص ترین رہی ۔ اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ بین االاقوامی معاملات میں حکومت ، اسٹیبلشمنٹ اور عوام ایک پیج پر ہوتے ہیں لیکن اندرون ملک یہ صورتحال اس کے برعکس حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے مفادات ایک ہوتے ہیں اور ان کا ٹکراؤ عوام کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ عوام کے خلاف برسرپیکار ہوتی ہیں ۔ جب تک حکومت اپنا وزن عوام کے پلڑے میں نہیں ڈالتیں ۔ صورتحال میں بہتری کے کوئ آثار نہیں پیدا ہونگے
دنیا آپ کی تقریروں سے زیادہ آپ کے عمل کو دیکھتی ہے ۔ جب عمران خان کہتے ہیں کہ دنیا کو چاہیے کہ وہ ایک ارب سے زیادہ آبادی کی مارکیٹ کو دیکھنے کے بجائے اخلاقی طور پر فیصلے کرے اور کشمیریوں کی حمایت کرے تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان نے اسی دن اور اسی فورم پر یمن کے مسلئے پر سعودی عرب کے حق میں ووٹ ڈالا ۔ اس کے ساتھ ساتھ جب ان سے چین میں مسلمانوں کی حالت زار اور ان کے حقوق کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ اسے بھی نظر انداز کردیتے ہیں اور اپنے عمل سے اپنے قول کی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں ۔ اور پھر کس طرح دنیا سے اخلاقی بنیادوں پر حمایت کا تقاضا کرسکتے ہیں
اب بات کرتے ہیں کہ عمران خان کی اچھی تقریر کشمیر میں کسی اچھی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے ۔ دنیا کے معاملات میں طاقت اور پیسے کا بنیادی رول ہے اور سارے فیصلے انہی مفادات کے تحت ہوتے ہیں ۔ ہمیں یاد ہوگا کہ جب امریکہ نے عراق کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تو ساری دنیا سراپا احتجاج نظر آئ لیکن اس سے امریکہ کے فیصلوں میں کوئ تبدیلی نہ آئ ۔ تو ایسی تقریروں سے بھی ذرہ برابر تبدیلی کے آثار نہیں ہیں
ہاں یہ ضرور ہوگا کہ پاکستان کے پہچان دنیا میں بہتر ہوگی ۔ کشمیر کی آزادی کے لیے ہمیں سٹریٹجی بنانا ہوگی اس پر ارادے کے ساتھ عمل کرنا ہوگا ۔ جس کے آثار مجھے تو ابھی تک نظر نہیں آئے ۔ آپ کو اگر کچھ سمجھ آتا ہے تو ضرور آگاہ کیجیے گا ۔