یہ پچھلے ستر سالوں سےمیرے ملک میں کس آئین و قانون کی بالادستی کا راگ الاپا جارہا ہے جہاں ایک لیڈی کانسٹیبل فائزہ نوازکو قانون کی خلاف ورزی پر ٹوکنے کے جرم میں گالیوں اور تھپڑوں سے نوازا جاتا ہے اور جب دوبارہ وہ قانون کو پکارتی ہے تو اسے دھمکیاں ملنی شروع ہوجاتی ہیں اب صورتحال یہ ہے کہ وہ اپنے کیے پر شرمندہ شرمندہ اور اپنے تحفظ کے لیےدر در بھیک مانگتی پھر رہی ہے ۔ یہ ہیں وہ لوگ جن کے ذمہ ہے کہ وہ میرے ملک میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے
ایک تجربہ آپ بھی کرکے دیکھ لیں ۔ آپ اپنے شہر میں موٹر سائیکل یا سستی گاڑی لے کر اپنے شہر کا چکر لگائیں اور دیکھیں کہ کیا آپ کو ٹریفک پولیس والے کتنا تنگ کرتے ہیں اور پھر ایک مہنگی گاڑی لے کر دوبارہ شہر کا چکر لگائیں اور اشاروں کی بھی خلاف ورزی کریں اور ٹریفک پولیس کے رویے کو چیک کریں ۔ آپ کو یقینی اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارے ملک میں قانون کی بالادستی کس طبقے کے لیے ضروری ہے اور کونسے لوگ ان جھنجھٹوں سے آزاد ہیں کیونکہ جو ٹریفک پولیس والے طاقتوروں کو قانون کا سبق پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ خود عبرت کی مثال بن جاتے ہیں
ساہیوال والا واقعہ تو ابھی ہماری یادداشت سے محو نہیں ہوا ہوگا جب دن دہاڑے ایک خاندان کو معصوم بچوں کے سامنے گولیوں سے بھون دیا گیا تھا اور اس پر شور شرابے کے بعد انصاف کے بلند و بالا دعوے کیے گئے تھے ۔ لیکن کیا ہوا ۔ کسی کو سزا ہوئ ؟ سنا ہے کہ حکومت نے ذاتی دلچسپی لے کر مدعی کو پیسے دے کر منالیا ہے ۔ حکومت کی اس عمل سے عوام کو کافی افاقہ ہوا اور کچھ لوگ جو نئے پاکستان کے نام پر بھٹک چکے تھے دوبارہ راہ راست پر آگئے ہیں اب ان کا یقین قانون کی بالادستی پر مضبوط ہوگیا ہے
کسی کو یاد ہو جب ریمنڈ ڈیوس نے دن دیہاڑے پاکستانیوں کو گولیوں سے بھون دیا اور اس کے خاندان والے انصاف کے لیے ہر سطح پر جانے کو تیار تھے ۔ اور مقتول فہیم کی بیوہ کو جب انصاف کی کوئ امید نظر نہ آئی تو وہ خود کشی کرلیتی ہے ۔ اور پھر مدعی خاندان اغوا ہوجاتا ہے اور عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جہاں گن پوائینٹ پر ان سے بیان لے کر ریمنڈ ڈیوس کو عزت اور پروٹوکول کے ساتھ روانہ کیا جاتا ہے ۔ اس وقت بھی ہم نے ملک کے باسیوں کو اصل قانون کا سبق اچھی طرح پڑھادیا تھا ۔ اور ان کے ذہنوں میں نقش کردیا تھا کہ ایک پاکستانی ہونے کا کیا مطلب ہے ۔ کچھ لوگوں کو اگر سمجھ نہیں آیا تو اس طرح کے کورس باقاعدگی سے ہوتے رہتے ہیں ۔ امید ہے کہ اب کوئ پاکستانی نہیں رہ گیا ہوگا جسے پاکستانی ہونے کا مطلب پتہ نہ ہو اور جسے اصل والے قانون کی بالادستی پر یقین نہ ہو
میرے ملک کا وزیراعظم ، میرے ملک کا چیف جسٹس اور میرے ملک کا آرمی چیف ہر تقریب میں اداروں کو مضبوط اور ملک میں قانون کی بالادستی کی بات کرتے ہیں ۔ اور پچھلے ستر سالوں سے لگاتار کرتے رہے ہیں ۔ کاش ان میں سے کسی ایک نے بھی اس دعوے پر عمل کرنے کی کوشش کی ہوتی ۔ صرف اور صرف اپنے ذاتی یا اپنے ادارے کے مفاد کے لیے کام کرتے رہے ہیں اور اب بھی یہی کچھ ہورہا ہے ۔ آج تک اس ملک میں قائد اعظم کے بعد کوئ حکمران نہیں گزرا جس نے حقیقی معنوں میں قانون و آئین کی بالادستی کے کام کیا ہو ۔ تبدیلی کھوکھلے دعوں سے نہیں عمل سے آتی ہے اگر ہم نے اس طرح کے ایک واقعے پر مثال قائم کی ہوتی تو لیڈی کانسٹیبل فائزہ نواز آج اپنے کیے پر اپنے تحفظ کے لیےدر در بھیک مانگتی نہ پھر رہی ہوتی
فائزہ نواز ایک لیڈیز کانسٹیبل ہیں اگر وہ پی ایس پی آفیسر بھرتی ہوئ ہوتی تو پولیس آفیسروں کے گروپ کا حصہ ہوتی اور اسے انکی مکمل سپورٹ حاصل ہوتی ۔ اور اسے طرح دردر اپنے تحفظ کے لیے بھیک نہ مانگنا پڑتی لیکن وہ تو عام عوام سے تعلق رکھتی ہیں جن کا مافیاز سے کوئ تعلق نہیں ۔ یہ ملک مافیاز کا ہے جس کا تعلق جس قدر طاقتور مافیا سے ہوگا وہ اتنا ہی ملکی قانون سے بالاتر ہو گا۔ اندازہ کریں بے گناہ نقیب اللہ مسحود سمیت بیسیوں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتاردینے والے ملزم راؤ انوار کے سامنے اس ملک کے انصاف کے ادارے کس قدر بے بس ہیں ۔ ایک طرف نہ صرف مسحود قبیلہ بلکہ پورا صوبہ اس قتل کیس میں انصاف کا طالب ہے اور احتجاج کررہا ہے دوسری طرف راؤ انوار کے سرپرست اس کا بال بیکا بھی نہیں ہونے دے رہے ۔ اور انصاف کے ادارے بے بس ہیں ۔ تو پھر فائزہ نواز اکیلی وکیلوں کے مافیا کا کس طرح مقابلہ کرسکتی ہے
ہمارے حکمرانوں نے ستر سالوں میں مافیاز کی پرورش کی ہے ۔ ان کو طاقتور کیا ہے ۔ انہیں ہر طرح کی سہولت باہم پہنچائ ہے ۔ آج یہ مافیاز ہمارے معاشرے میں عفریت کی مانند اپنے پنجے گاڑ چکے ہیں اور ملک کو اس نہج پر لے آئے ہیں جہاں سے آگے صرف بربادی ہے ۔حضرت علی کا قول ہے کہ
کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی ۔
حضرت عمر کی حکومت شام عراق سے ایران تک پھیلی ہوئی تھی پاکستان کا رقبہ ساڑھے تین لاکھ مربع میل سے کم ہے ۔ تصور کریں کہ 22لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئ سلطنت جس میں مختلف ملک، مختلف مذاہب، مختلف قومیں ہیں۔ لیکن ہر طرف امن و امان اور سکون و اطمینان چھایا ہوا تھا کہ حضرت عمرکے بقول اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی مرے گا تو اس کا ذمہ دار میں ہونگا ۔ ایسا صرف اس لیے کہ اس ریاست میں حقیقی طور پر قانون کی بالادستی تھی
جب قریش ایک عورت جس کو چوری کے جرم میں سزا ہونا تھی اس کی سفارش لے کر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ ” تم سے پہلے لوگ جو گذرے ہیں ان کو اسی چیز نے ہلاک کیا کہ ان میں سے کوئی شریف آدمی (یعنی دنیاوی عزت وطاقت رکھنے والا ) چوری کرتا تو وہ اس کو (سزا دیئے بغیر ) چھوڑ دیتے تھے اور اگر ان میں سے کوئی کمزور وغریب آدمی چوری کرتا تو سزا دیتے تھے ، قسم ہے اللہ کی ! اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالوں ۔” (بخاری ومسلم)

https://www.facebook.com/aamlogmultan/photos/pcb.393626027965579/393626001298915/?type=3&__tn__=HH-R&eid=ARBVbzEOG4DMwkxn97NZhR5ziGcAqz6RsqNZQ_W7XQD8uRxjuimgrpOztq7qXYV6CbdSlgNnK1Sm0YaD&__xts__%5B0%5D=68.ARCkhb46w4MhnUHqA0q4xAt_ZphGRCDOyIUGoYf_0fnlewLIQL4Y_a7VUdybaAk2UVI8BDQPNivALleDKeQrN5ScqNRrgXPEE0dkEgBhsvA7eL6QmUAuS_p9qk15QmD0r36-kre100eUIndVBaHuC6x89sA2HiRLa7C6AdjRRAA5I7tRQktuhbFdG_Vc2kQw_CVzTWuNSGREMIPW35zOoaFjjYLVKLBE1HiYiwFZ32a4rJlwoPI8MN_w9GmIQt1uJyr9R3_jqcNwnMWaWKT-SdQbzcXpEwuAOj2Sk_PDkSvZKblUysCK1eVMO5gnEDuu1t8Za_qBmNIPOFDEYKen154