ایک وڈیو کلپ نظروں سے گزرا ہے جس میں وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کشمیر کا جھنڈا اٹھائے عمران خان کی طرف بڑھتی ہیں اور انکو جھنڈا تھمانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن عمران خان جھنڈا نہیں پکڑتے ۔
شائد وزیراعظم کے ذہن میں کوئ سفارتی اصول ہو جس کی بنا پر انہوں نے جھنڈے کو پکڑنا مناسب نہیں سمجھا ۔
لیکن تصور کریں جو کشمیری یہ منظر دیکھ رہے ہونگے انکے دل پر کیا گزری ہوگی جب ہم کشمیر کے سفیر بننے کا اعلان کردیں اور جب بات ہو کشمیر سے یکجہتی کی ہو پھر ہمیں کسی بھی سفارتی اصولوں سے ہٹ کر سوچنا چاہیے. خاص طور پر اس وقت جب انڈیا سارے بین االاقوامی اور ملکی قانونوں کو روند رہا ہو
مجھے اس کلپ کو دیکھ کر ایسے لگا جیسے انڈیا اپنی غلطی کی وجہ سے ہمیں کشمیر پیش کرہا ہے اور ہم اس کی طرف ہاتھ بڑھا کر قبول کرنے سے انکاری ہیں ۔ وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے اور کشمیرکی آزادی ایک بھولی ہوئ داستان ہی رہ جائے
کبھی کوئ سوچ سکتا تھا کہ کشمیری جو آج تک پاکستان اور انڈیا کے درمیان منقسم رہے کبھی اپنی آزادی پر اس طرح متفق ہوسکتے تھے اگر انڈیا یہ بے وقوفی نہ کرتا
کبھی کوئ تصور کرسکتا تھا کہ انڈیا نواز سیاستدان محبوبہ مفتی یا فاروق عبداللہ اس طرح برملا اپنی ماضی پر پچھتائیں گے اور یوں ایک آواز ہوکر پاکستان کے موقف کی حمایت کریں گے
کبھی کوئ تصور کرسکتا تھا کہ کشمیر کے نام پر انڈیا نے پاکستان کے خلاف جس طرح پروپیگنڈہ کیا ہوا تھا اس کا اثر اس کی اپنی بے وقوفی سے راتوں رات یوں ختم ہوجائے گا۔ اور دنیا کشمیر کو ایک نئ نظر سے دیکھنا شروع کردے گی ۔
ہم بھی عجیب قوم ہیں جب کشمیری ڈانواڈول تھے ۔ ہم ان کی خاطر جنگیں لڑتے رہے ۔ اپے جوانوں کی قربانیاں دیتے رہے دنیا بھر دہشت گردی پھیلانے کے نام پر رسواہوئے ۔ اسی تگ ودو میں ملک کے دو حصے کروادیے ۔ معشیت کا بیڑا غرق کیا ۔ کشمیر کے لیے افغانستان میں امریکہ کی جنگ لڑتے رہے ۔ سٹریٹجک ڈیپتھ کے حصول کے لیے اور انڈیا کے خلاف کشمیر کی آزادی کے لیے اپنے سارے وسائل لگا دیے اور جب قدرت ہمیں موقع دیتی ہے اس وقت ہماری پوری توجہ امریکہ کی خوشنودی پر ہے ۔ ہم امریکی افواج حفاظت کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں اور طالبان اور امریکہ کا معاہدہ کروارہے ہیں یہ اعلان کرہے ہیں کہ انڈیا کے ساتھ ہم حملے میں کبھی پہل نہیں کریں گےاورکلبھوشن کی انڈین حکام سے ملاقاتیں کروارہے ہیں
ایسے لگتا ہے کہ کسی نے ہمارے وزیراعظم کے ذہن میں امن کے نوبل انعام کا لالچ ڈال دیا ہے لیکن اس نوبل انعام کے لیے کشمیریوں کی لاشوں اور کشمیر کی آزادی کو روند کر جانا ہوگا ۔
سوال یہ ہے کہ ہمیں دنیا کی نظر میں اچھے بننا ہے یا قومی مفادات کا خیال رکھنا ہے ۔ جس دن ہم اس بات کا فیصلہ کرلیں گے ۔ ہم حقیقی پاکستان کی منزل کی طرف سفر شروع کردیں گے
انڈیا بنگلہ دیش کے عوام کے نام پر بنگلہ دیش آزاد کروانے سرحد کو پامال کرسکتا ہے لیکن پاکستان کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم اور ریاستی دھشتگردی کے متعلق صرف دنیا کو آگاہ کرتا رہے گا ۔ اور کشمیری بے بسی سے اپنے نسل کشی کو دیکھتے رہیں گے
اگر آج ہم اعلان کردیں کہ ہم کنٹرول لائن کو تسلیم نہیں کرتے اور کشمیریوں کو کشمیر میں لڑنے سے روکنے کے بچائے انکی حمایت کریں گے اور دنیا کی ہاں میں ہاں ملا کرانکو دھشت گرد کہنے کے خلاف ڈٹ جائیں تو دنیا کے پاس ہمارا موقف ماننے کے علاوہ کوئ چارہ نہیں رہ جائے گا
ہوسکتا ہے میری تجویز مناسب نہ ہو ۔ اس سے بہتر طریقہ کار ہوسکتا ہے جس سے کشمیر کی آزادی کی منزل نزدیک ہوجائے لیکن ایک بات میں پورے یقین سے کہ سکتا ہوں کہ ہمیں امن کا نوبل انعام سے کوئ سروکار نہیں ہونا چاہیے ۔ ہمیں کشمیر کی آزادی کے لیے دھشت گرد بھی کہلوانا پڑے تو ہماری صحت پر کوئ فرق نہیں پڑنا چاہیے