کشمیر کے مسلے پر سب سے پہلے ہمیں کچھ باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے
یہ کہ نہ توہم یورپین ہیں ، نہ ہم امریکن اور نہ ہی ہم ہندوستانی ہیں ۔ ہماری شناخت ضروریات حالات اور مفادات ان سب سے مختلف ہیں ۔ اگر یہ سب کشمیر میں جاری آزادی کی مہم کو دھشت گردی کہنے پر تلے ہوئے ہیں تو ہمیں ان کو دیکھ کر اپنی گال لال نہیں کرنی چاہیے ۔ اور ان کی آواز میں ہم آواز ہو کر مجاہدوں کو دھشت گرد قرار دے کر جیل کے اندر بند نہیں کردینا چاہیے ۔ یا ایسے کام شروع ہی نہیں کرنا چاہیے جس پر سٹینڈ نہیں لے سکتے ۔ عجیب تماشا ہے پہلے ہم ااپنوں کو استعمال کرکے کچھ کر گزرتے ہیں اور پھر دنیا کو دکھانے کے لیےانہی اپنوں کو ذلیل و خوار کرتے ہیں ۔ حافظ سعید کی مثال ہمارے سامنے ہے اسے ہم دنیا کو دکھانے کے لیے جیل میں ڈال دیتے ہیں کارگل کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ انڈیا ہمارے ہیرو کرنل شیرخان کی لاش ہمارے حوالے کرنا چاہتا ہے اور ہم انکار کردیتے ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ ہم دنیا کو دکھانے کے لیے اپنے ہیرو کو ٹی وی پر ساری دنیا کے سامنے معافی مانگنے پر مجبور کردیتے ہیں ۔
ایسا بار بار کیوں ہوتا ہے ۔؟
اس لیے کہ کبھی ہم امریکی بن جاتے ہیں ۔ کبھی ہم عرب بن جاتے ہیں اور کبھی چین کی یاد ستاتی ہے تو ہم چینی بن کو سوچتے ہیں ۔ خدارا کبھی پاکستانی بن کر بھی سوچ لیں تو آپ کو سمجھ آئے گا کہ کشمیر صرف اور صرف مسلح مزاحمت سے ہی آزاد ہوگا ۔ باقی سب باتیں ہیں خٰٰٰٰیالی پلاؤ ہیں جتنے مرضی پکاتے جائیں ۔۔۔
دنیا کے کسی اور خطے میں کوا بھی مرے گا تو اس کی سپورٹ کے لیے بھی لوگ نکل آئیں گے لیکن اگر انڈیا یہاں کشمیریوں کا قتل عام بھی کرے تو خبر نہیں بنے گی ۔ کیونکہ اس خطے کی صورتحال ہی ایسی ہے ۔ یہاں حکومتیں بغاوت کو دبانے کے لیے کسی اخلاقیات اور نہ ہی کسی قانون کی پابند ہوتی ہیں ۔ کسی مخالف آواز کو دبانے کے لیے ہر غیر اخلاقی ، غیر قانونی حربہ استعمال کرنے میں آزاد ہوتی ہے چاہے پاکستان ہو یا ہندوستان ۔۔
ایسے حالات میں کسی غیر مسلح مزاحمت ، پرامن تحریک پر کسی خطے کو آزادی مل جائے اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ایسی پرامن تحریک ریاست کی غیر اخلاقی وغیرقانونی حربوں کے سامنے زیادہ دیر ٹک نہیں پاتی ۔
اس خطے کی حکومتیں صرف ایک اصول کو مانتی ہیں اور وہ ہے طاقت اور خوف کا اصول ۔۔۔ اگر کشمیر کے لوگ مسلح مزاحمت کے ذریعے انڈیا کوخوفزدہ کردیتے ہیں تو پھر آزادی کی منزل زیادہ دور نہیں
اور دوسری بات ہمیں چھپ چھپ کر کچھ کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کا فائدہ ہوتا ہے الٹا یہ طریقہ کار ہمیں دنیا میں ذلیل و خوار کرتا ہے جو کچھ کرنا ہے ڈنکے کی چوٹ پر کیچیے ۔ کارگل میں انڈین طیارے ہمارے فوجیوں پر بمباری کرتے رہے اور ہم انکومجاہدین کہ کرنظر انداز کرتے رہے اگر ہم ان تک صرف خوراک اور اسلحہ ہی پہنچادیتے اور انہیں کھلے عام اپنا تسلیم کر لیتے تو انڈیا کارگل کے پہاڑوں سے سرٹکرا تا رہ جاتا لیکن ان چوٹیوں کو کبھی سر نہ کرسکتا۔
میں کارگل کی چوٹیوں پر براجمان جوانوں کے بارے میں یہ تصور کرکے لرز جاتا ہوں کہ کس طرح ہمارے جوان بھوکے پیاسے آسمان اور زمین سے سے برستی بارود کی آگ میں سیسہ پلائ دیوار بنے رہے اور ہم ان کو مجاہدین کہ کر خاموشی سے انکی شہادتوں کا نظارہ کرتے رہے
۔
اگر آج ہم اعلان کردیں کہ ہم کنٹرول لائن کو تسلیم نہیں کرتے اور کشمیریوں کو کشمیر میں لڑنے سے روکنے کے بچائے انکی حمایت کریں گے اور دنیا کی ہاں میں ہاں ملا کرانکو دھشت گرد کہنے کے خلاف ڈٹ جائیں تو دنیا کے پاس ہمارا موقف ماننے کے علاوہ کوئ چارہ نہیں رہ جائے گا