آج رانا ثنااللہ کے کیس کے دوران واٹس ایپ کے ذریعے جس طرح جج کو تبدیل کیا گیا اس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی ۔ اس ایک سال کے اندر جس طرح ریاست اور عوام کے باہمی تعلق اور اعتماد کو تباہ کیا گیا اسکی مثال بھی اس ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کچھ انسانوں کی خاطر ریاست کو کیوں تباہ کیا جارہا ہے ۔ روز تماشا لگا ہوتا ہے ۔ روز عجلت میں ایسے فیصلے سامنے آتے ہیں جن سے ریاست کا دامن تار تار ہوجاتا ہے ۔ یہ روز روز تماشا اور ڈرامہ دکھانے کے بجائے ایسے شرپسند عناصر سے مستقل ہی پیچھا چھڑا لیا جائے اور اس کے لیے ایک نیا آرڈینس جاری کیا جائے کہ جس شخص کی طرف وزیراعظم اشارہ کرے اسے غدار قرار دے کر اگلے دن پھانسی پر چڑھادیا جائے تاکہ حکومت کسی اور طرف توجہ کرسکے ۔
نہ کسی گواہ کی ضرورت ہو نہ کسی وکیل کی اور نہ کوئ اپیل ہو نہ جج کو سوچنا پڑے گا کیا فیصلہ کرنا ہے اور نہ ہی انتظامیہ کی دوڑیں لگیں گی بس وزیراعظم کا اشارہ ہی حتمی ثبوت تصور کیا جائے
اندازہ کیچیے کہ کشمیر کی آزادی کے سب سے اہم ترین موڑ پر جب ساری دنیا اور خصوصی طور پر ہندوستان خوف کے عالم میں دم سادھے پاکستان کے شدید ردعمل کے انتظار میں تھا ۔ ہم نے ٹھیک دو روز بعد محبوبہ مفتی کی آواز خاموش کرنے کے جواب میں مریم نواز کی آواز کو خاموش کرکے بھرپور ردعمل کا اظہار کیا ۔ اور بییس روز گزرنے کے بعد انڈیا کے کرفیو کے جواب میں جمعہ کو آدھے گھنٹے کے لیے ٹریفک بند کرنےاور لوگوں کو کھڑے ہونے کا کا حکم دیا ہے ۔ ۔
اس سےصاف طور پر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کہ ساری ریاستی مشینری ان چند لوگوں کی وجہ سے یرغمال اور مفلوج ہوگئ ہے
عوام نے جہاں اتنی قربانیاں دی ہیں ان چند لوگوں کی قربانی بھی رو دھو کے برداشت کرلے گی ۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ۔ اور پھر ملک میں چین ہی چین ہوگا اور چاروں طرف خوشحالی کی نہریں بہ رہی ہونگی