• کچھ دوستوں سے سنا کہ صحافی و دانشور عرفان صدیقی کی گرفتاری سے موجودہ حکومت کا کوئ تعلق نہیں بلکہ پاکستان میں ادارے آزاد ہیں اور یہ ان کا ادارہ جاتی فعل ہے . عرفان صدیقی کے کیس میں تو اداروں کی آزادی کا کوئ کردار نطر نہیں آتا ۔ البتہ یہ تو مثال ہے کہ ادارے اس وقت جتنے یرغمال ہیں پہلے کبھی اتنے نہ ہوئے تھے ۔ مثال کے طور پر
  • ١۔ پاکستان کا معاشرہ بنیادی طور پر جاگیرداری سماج ہے جہاں قانون کی عمل داری بھی جاگیردار سماج کے اصولوں کے مطابق ہوتی ہے ۔ یعنی کے قانون بچائے ایک فرد کے تحفظ کے طاقت ور کے مفاد کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے اور معاشرے میں قانون کی حکمرانی کے بجائے طاقت کی حکمرانی قائم ہے
    یہاں ادارے اس طرح آزادی سے کام نہیں کرتے جس طرح یورپ میں ہوتا ہے بلکہ ادارے طاقتور کے مٍفاد کے لیے کام کرتے ہیں اور اس وقت ملک میں طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور حکمران ہی ہیں
  • ٢۔اس طرح اداروں کی orientation اپنی تخلیق کے مقاصد کے بجائے طاقت ور کے مقاصد کی تکمیل یا اپنے ذاتی یا ادارہجاتی مفاد کی طرف ہوتی ہے تو پھر ملک میں صرف انہی قوانین پر عمل ہوتا ہے ۔ جس پر موجودہ حکومت یا طاقت کی توجہ ہویا ادارہ جاتی مفاد ہو ۔ اور جن قوانین پر انکی توجہ یا مفاد نہیں ہوتا ادارے انکو نظرانداز کردیتے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں قانون تو بہت ہیں لیکن ان پر عمل داری کی شرح بہت کم ہے ۔ کرایہ داری کا قانون بھی اسی کیٹیگری میں آتا ہے ۔ ہر شہر میں لاکھوں ایسے مثالیں ہیں جہاں لوگ کرایہ داری کا اندراج نہیں کرتے ۔ تقریبا اگر اوسط نکالی جائے تو کرایہ داری کا اندراج صرف دس پندرہ فیصد لوگ ہی کرواتے ہیں اور باقی لوگوں کے خلاف کبھی کاروائ کا نہیں سنا ۔ دیگر مثالوں میں کم عمری میں ڈرائیونگ کی پابندی کا قانون ۔ عورتوں کو جائیداد میں حصہ دینے کا قانون، پائریسی کا قانون جس کے مطابق ہم کتاب یا سوفٹ ویر کی کاپی نہیں کرسکتے اور اسکی سزا ہے لیکن ایسے قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوتی ہے اور ان قوانین پر عمل در آمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ تو ایسے حالات میں عرفان صدیقی کے خلاف کرایہ داری کے قانون کا استعمال کی کوئ توضیح نظر نہیں آتی ۔
    ٣۔ اس قانون کے تحت بھی ایک مہینے کے اندراج کروانا ہوتا ہے ۔ اور صرف اسی کے خلاف کاروائ ہوتی ہے جس کے نام ملکیت ہوتی ہے ۔ کسی طور پر بھی کسی دوسرے کے خلاف کاروائ نہیں ہوسکتی چاہے وہ اس کا کتنا ہی قریبی ہو۔ لیکن اس کیس میں ہماری انتظامیہ اور ہماری عدلیہ بلکل غیرقانونی عمل کرتے نظر آتے ہیں اور حقائق کو نظر انداز کرتے نظر آتے ہیں انہیں رہا کرنے کے اتوار کو عدالت لگتی ہے اور انکی ضمانت لی جاتی ہے تو اس عمل سے بھی اداروں کی آزادی کہیں نظر نہیں آتی تو کس طرح کوئ کہ سکتا ہے کہ ادارے آزادی سے کام کررہے ہیں ۔
    ٤۔ عمران خان کہتے تھے اگر ٹرین کو حادثہ ہو تو وزیر اس کا ذمہ دار ہے اور اسے کو استعفی دین چاہیے ۔ اور ملک میں کوئ غلط ہو تو وزیراعظم ذمہ دار ہو تا ہے تو اس غیر قانونی عمل کی ذمہ داری کس پر ہوگی ۔
    اگر اب بھی کچھ دوست اسے اداروں کا آزادانہ فیصلہ کہنے پر بضد ہیں تو میں انکا دلائل سے موقف سننا چاہوں گا ۔