-
تاجر حضرات شناختی کارڈ کی شرط پر احتجاج کیوں کررہے ہیں ؟ آئیے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے معاشرے میں جہاں قانون کے بجائے طاقت کی حکمرانی ہوں وہاں جب طاقت ور کمزوروں کا معاشی و سیاسی استحصال کرتے ہیں تو انکے اندر غیر محفوظ ہونے کا شدید احساس پیدا ہوجاتا ہے ۔ عوام ہو وقت غیر یقینی اور بے اعتمادی اور خوف کی فضا میں زندگی گزارتے ہیں اور انکے اندر مندجہ ذیل رویے پرورش پا جاتے ہیں ۔
١۔ انکا قانون پر یقین ختم ہوجاتا ہے اور انکی اورینٹیشن(orientation) طاقت کی طرف ہوجاتی ہے وہ اپنے مسائل کے لیے طاقت ہی کی طرف دیکھتے ہیں اور شعوری اور لاشعوری طور پر طاقت کے ہاتھوں کھیلتے ہیں اور اسی کے نظریات کو ترویچ دیتے ہیں جیسا کہ ایک دانشور نے کہا تھا کہ طاقت نیکی ہے ۔
-
٢۔ انکی زندگی اصولوں کے بجائے اپنے ذاتی و گروہی مفاد کے تابع ہوجاتی ہے ۔
-
٣۔ وہ اپنی روزمرہ زندگی میں بھی دھونس اور طاقت کا استعمال کرتے ہیں
-
٤۔ اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے بجائے اپنے تحفظ کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور بے حسی اور خودغرضی کا شکار ہوجاتے ہیں
-
اب میں کچھ مثالوں کے ذریعے عوام کے رویے کو دکھانا چاہوں گا۔
-
ہمیں بینک ، ہسپتال یا کہیں اور لائین میں لگنے کا تجربہ ہوا ہوگا ۔ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کچھ خاص لوگ آتے ہیں اور وہ لائین میں لگنے کے بجائے اپنے تعلقات استعمال کرتے ہیں اور ڈائیرکٹ ہی کام کروالیتے ہیں یا ہماری لائن سے کوئ زبردستی آگے نکل کر اپنا کام کروالیتا ہے ۔ ہم اپنے آپ کا استحصال کا شکار پاتے ہیں اور بے چین اور پریشان ہوجاتے ہیں ۔ کہ ہماری باری پتہ نہیں کب آئے گی اور ہمارا وہاں گزرنے والا وقت اذیت کا شکار ہوجاتاہے۔ لیکن اگر ہمیں کوئ یہ یقین دلادے کہ آپ کی باری آپ کے نمبر کے حساب سے آئے گی تو ہم آسانی سے وہ وقت گزار لیتے ہیں چاہے اس سے زیادہ ہی وقت لگ جائے ۔ یعنی طاقت کے نظام ہم سے سکون اور خوشی چھین لیتا ہے۔
-
آپ نئے نئے یورپ سے ہوکر آئے ہیں اور وہاں قانون اور لوگوں کے اخلاق سے بہت متاثر ہوئے ہیں کہ لوگ کس طرح دوسروں کے حقوق کا خیال کرتے ہیں آپ وہی رویہ یہاں اپنانے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی روڈ پر رش میں قانون اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کو کوئی بھی رستہ نہیں دے رہا تو پھر آپ بھی اپنا سبق بھول کر اسی دھونس اور طاقت کا رویہ اپنا لیتے ہیں ۔
-
آپ نے لوگوں سے سنا ہوگا کہ جب کوئ روڈ اکسیڈنٹ سے مر جائےیا کوئ لاش نظر آئے تو موقع سے دور چلے چائو کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ پر ہی مدعا ڈال دیا جائے ۔ یا اگر آپ سے کوئ اکسیڈنٹ ہوجائے تو وہاں مت ٹھرو ۔ ایک دفعہ لاہور میں ایک دوست ہمیں سایفن کی سیر کے لیے لے کر گیا اور نہر کے ساتھ ساتھ جاتے ایک جگہ ایک لاش پانی میں تیرتی نظر آی جو کہ نہر میں رکشہ گرنے سے ڈوبنے والوں میں ایک کی تھی ۔ انکو دیکھ کر ہمارے دوست نے گاڑی واپس موڑ لی کہ کہیں مدعا ہم پر ہی نہ پڑ جائے ۔ یعنی طاقت کا نظام ہمیں اس حد تک غیر محفوظ کردیتا ہے ۔
جس میں ہمیں یقین ہو جا تا ہے کہ ہمارا کمزور ہونا ہی ہمارا سب سے بڑا گناہ ہے اسکے علاوہ طاقتور کو کسی دوسرے ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
-
اچھا اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ تاجر ٹیکس نیٹ میں آنے پر ہڑتال کیوں کرہے ہیں ۔ اب اگر اوپر دی گئ مثالوں کو ذہن میں رکھیں تو اس کی وجہ سمجھ آتی ہے ۔ تاجروں کا عدم تحفظ اور طاقت ور کے ہاتھوں استحصال ہونے کا تجربہ اور قانون کی حکمرانی کا فقدان بنیادی وجوبات ہیں ۔ انہیں طاقت کے نظام میں اپنا تحفظ کرنا ہے ۔ جہاں یہ تصور رائچ ہے جو پھنس گیا وہ مرگیا اور جو طاقتور ہے اس کا کوئ بال بیکا بھی نہیں کرسکتا ۔ اس بنا پر تاجر یا عوام اپنے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے ۔اور قانون کے بجائے اپنے ذاتی و گروہی مفادات کا تحفظ کرنے کی کوشش کرے گا
-
تو پہلا کام حکومت کا یہ کرنے والا ہے کہ بجائے وہ طاقت کے ذریعے ٹیکس نیٹ میں لوگوں کو شامل کریں لوگوں کی اورینٹیشن(orientation) یعنی یقین کو بدلے اور قانون کی حکمرانی کا یقین دلائے تا کہ لوگوں میں تحفظ پیدا ہو اور انکی زندگیوں میں سکون آئے اور انکے اندر اصول اور احساس جیسے رویے تشکیل پائیں اور وہ ٹیکس نیٹ میں بخوشی شامل ہوں ۔
جب تاجر یا عوام یہ دیکھے گی کہ ملک میں طاقت تو اسی طرح اندھا کھیل کھیل رہی ہے ۔ وہ جس جج کو نکالنا چاہتی ہے اسے نکال دیتی ہے ۔ وہ جس کو وزیر بنانا چاہتی ہے وہی وزیر بنتا ہے ۔ اور جس صحافی کی آواز کو بند کروانا چاہتی ہے اسے خاموش کروادیتی ہے اور جو اس طاقت کا ہمنوا بن جاتا ہے وہ نیک پاک ہوجاتا ہے اور اسکے سارے گناہ دھل جاتے ہیں تو وہ کس طرح قانون کی بالادستی پر یقین کرے گا اور اپنی بقا اور تحفظ کے لیے طاقت کے نظام کے اصولوں کے تحت کوشش کیوں نہ کرے گا ۔