اقبال کی ساری شاعری کا محور خودی کا حصول ہے جیسا کہ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
کسی بھی قوم کی ترقی کا دارومدار اس کی پہچان اور اس کی شناخت اور اس کے کلچر کے فروغ پر ہوتا ہے نہ کہ دوسروں کے کلچر کو فروغ دینے سے کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے اسے ذہنی غلامی کہا جاتا ہے اور ذہنی طور پر غلام قوم کا ترقی کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا
ہم اپنی پہچان اپنی شناخت کو فروغ دینے کے بجائے کبھی یورپ کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں کبھی چائنا ماڈل میں ہم اپنا مستقبل تلاش کر رہے ہوتے ہیں اور کبھی سعودی عرب کی نقل اتار رہے ہوتے ہیں اور کبھی ہم ترکی اور ملائیشیا میں اپنا مستقبل دیکھ رہے ہوتے ہیں
دوسری اقوام سے علم اور ٹیکنالوجی سیکھنا ہے ایک الگ بات ہے جس کی اہمیت سے کبھی انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن دوسری اقوام سے مرعوب ہو کر ان کی نقالی کرنا ان کے کلچر کو فروغ دینا ایک الگ بات ہے اور یہ ذہنی طور پر پسماندگی کی نشانی ہے
کسی انسان اور کسی قوم کی ترقی میں قوت ارادہ ایک بنیادی کردار ادا کرتا ہے اور جب کسی فرد میں یا کسی قوم میں قوت ارادی کی کمی ہو وہ ذہنی طور پر پسماندہ ہو اور دوسروں سے مرعوب ہو تو وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ دوسروں سے کم تر ہے اور دوسرے اس سے بہتر ہیں اور جب کسی قوم کو اس یہ یقین ہو کہ وہ دوسروں سے کم تر ہے تو اس کی ترقی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا وہ ہمیشہ دوسروں کی نقالی کرتے رہیں گے اور زوال پذیر ہوں گے
یوم پاکستان صرف پاکستان سے متعلق ہونا چاہیے اس میں پاکستان کے کلچر اور پاکستان کی شناخت کو فروغ دیا جانا چاہیے اور قوم کو بتایا جانا چاہیے کہ پاکستان کی شناخت پاکستان کا کلچر دنیا میں سب سے بہترین ہے اور جب یہ تصور ذہن نشین ہوجائے گا تو پھر ہی یہ قوم ترقی کر سکتی ہے