نہ ہی وہ ڈرا ہے اور نہ ہی اس نے سچ بولنے سے توبہ کی ہے
خوف کی اپنی نفسیات ہے ۔ جب تک کوئ اس کا سامنا کرنے کا اعلانیہ اظہار نہ کرے اس کی اثر پذیری ہے لیکن جب کچھ لوگ اس کا سامنا کرنے کا اعلان کردیتے ہیں تو یہ چھٹ جا تا ہے اور مطلع صاف ہوتا جاتا ہے ۔
خوف کا استعمال شخصیت کو دیکھ کر اور کبھی کبھار ہی کرنا چاہیے کیونکہ کثرت سے اسکا استعمال بھی الٹا نقصان دیتا ہے ۔ جنگ یا وبا کے دوران جب ہر طرف موت کا راج ہوتا ہے لوگ موت کے خوف سے آزاد ہوتے جاتے ہیں
پتہ نہیں ہمیں سمجھ کیوں نہیں آتئ ۔ جو کچھ بھی ہم پلان کرتے ہیں وہ کچھ عرصے بعد ہمارے ہی گلے پڑجاہے اور جتنا وقتی فائدہ ہم نے اس پلان سے حاصل کیا ہوتا ہے ۔ اس سے کئ گناہ نقصان ہوجاتا ہے یعنی ہمیں قرض سود سمیت واپس کرنا پڑتا ہے
دیگر قوموں نے صدیوں کے تجربے کے بعد نتیجہ نکالا کہ کوئ بھی معاشرہ اصولوں کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا ۔ اور اس نتیجے کی بنا پر آئین و قانون وجود میں آئے جن پر ہر کس کو عمل کرنا لازم ٹھہرا ۔چاہے کسی کی سماجی و معاشی حیثیت کچھ بھی ہو۔ سب پر اطلاق ایک جیسا ہوگا ۔ تاریخ گواہ ہے جن قوموں نے اس اصول کو اپنا لیا انہیں عروج حاصل ہوا ۔۔
ایک ہم ہیں جو پیچھے کی جانب سفر کرہے رہے ہیں اور اب تو بنگلہ دیش بھی ہم سے کئ گنا آگے نکل گیا ہے
پتہ نہیں ہمیں کیوں اس بنیادی بات کی سمجھ نہیں آرہی ۔ اگر آپ کو یہ آئین و قانون پسند نہیں تو نیا بنالو لیکن اس کی خلاف ورزی کسی صورت نہ کرو یہ تو ایسے ہی ہوگا کہ جس شاخ پر آپ بیٹھے ہوں اسی کو کاٹ رہے ہوں