اور طالبان اب ایک مرتبہ پھر قندھار کا کنٹرول سنبھالنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔انڈیا کے انگریزی اخبار دی ہندو نے صفحہ اول پر خبر شائع کی کہ طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے پیشِ نظر انڈیا نے افغانستان کے شہر قندھار میں اپنے قونصل خانے کی بندش کا فیصلہ کیا ہے۔
پچھلی دودہایوں سے پاکستان شدت پسندی اور دہشت گردی کے زہر سے نبردآزما رہا ہے اور لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کرچکا ہے ۔ اور اپنی معیشیت کا بیڑہ غرق ہوتے دیکھ چکا ہے اور لگ یہ رہا تھا کہ پاکستان طالبان کو سپورٹ کرنے کی غلطی دوبارہ کبھی نہیں کرے گا۔ لیکن اپنے سطحی مفادات کے پیش نظر پاکستان دوبارہ اسی راستے کی طرف گامزن ہے جس کی منزل تباہی و بربادی کے سوا کچھ اور نہیں
پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے اتوار کو کہا کہ انڈیا کو افغانستان میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ انڈیا کے پاس افغانستان سے اپنے عملے کو واپس بلوانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ اُ
پاکستان کے وزیر خارجہ نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ طالبان سادہ مگر ذہین اور قابل لوگ ہیں ۔
طالبان کے نقطہ نظر کی عوام میں پذیرائ کے لیے تحریک طالبان افغانستان کے ترجمان کا پاکستانی چینل پر انٹرویو انٹرویو نشر ہوتا ہے۔ کیا ریاست کے اداروں کی اجازت کے بغیر ایسا ممکن ہے؟
شیخ رشید کہتے ہیں کہ آج کا طالبان ماضی کے طالبان سے بہت مختلف ہے ایک سلجھا ہوا نیا طالبان جنم پا چکا ہے ۔
صدر پاکستان اپنے ایک ٹویٹ میں فرماتے ہیں
“پاکستان کی اُبھرتی معیشت کو دو خطرات لاحق ہیں۔ ایک افغانستان میں بدامنی، جس پر ہمیں اُمید ہےکہ طالبان اور انکے ہم وطنوں کو امن و آشتی نصیب ہوگی۔ دوسرا، کورونا کیسز کی تعداد میں ممکنہ اضافہ۔”
یہ سب بیانات ظاہر کررہےہیں کہ پاکستان قندھار میں طالبان کی پیش قدمی پر خوش اور انکو مکمل سپورٹ کررہا ہے اور انڈیا کے سفارت خانے کی بند ہوجانے کو اپنی کامیابی کے طور پر دیکھ رہا ہے.
اور نظر یہ آرہا ہے کہ پاکستان نے چائنا ماڈل کو اپنانے کا فیصلہ کرلیا ہے جس میں جمہوریت ، آزادی صحافت اور انسانی حقوق کو نظرانداز کرکے طاقت اور خوف کے رول کو اہمیت دی جائے گی اور اسی پر ملکی پالیسی ترتیب دی جائے گی۔ چائنا اور طالبان کی فیصلہ سازی میں بھی جمہوریت ، آزادی صحافت اور انسانی حقوق کی اہمیت نہ ہے ۔
عام پاکستانی جو صدیوں کی غلامی اور جذباتیت کا شکار رہے ہیں وہ اس پالیسی کے نفاذ سے مزید ذہنی پس ماندگی کا شکار ہوجائیں گے ۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں اگر تو طاقت اور خوف کے ماحول میں ذہنی صلاحیتوں کو دبادینے سے کوئ قوم ترقی کرسکتی ہے تو پھر اس ماڈل کو اپنانے میں کوئ مضائقہ نہیں ۔ اگر اس کا جواب نہ میں ہے تو پھر عوام کو حقوق اور آزادی کا تصور دینے میں ہی ترقی کا راز ہے۔
جہاں تک چایئنا کی معاشی ترقی کی بات ہے ۔ وہ ایک عارضی عمل نظر آرہا ہے۔ چایئنا سستی لیبر اور دنیا کے آزاد کاروباری ماڈل کا فائدہ اٹھا رہا ہے ۔ تخلیقی کام کے بجائے ٹیکنالوجی کی کاپی پر انحصار کررہا ہے ۔ اور مستقبل میں اگر گیم کے اصول بدل گئے تو کوئ پتہ نہیں چاینا بھی روس کی جگہ کھڑا نظر آئے .
تاریخ پر سرسری نظر ڈالیں تو یہ بلکل واضح ہوجائے گا کہ قوموں کے عروج و زوال میں تخلیقی سوچ بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ بارود کی ایجاد کے بعد جب گیم کے اصول بدل گئے تو انگریزوں کے سامنے مغلوں کا جاہ جلال، ٹیپو سلطان کی شجاعت اور عثمانیوں کی وسیع و عریض حکمرانی بے بس نظر آتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں جب جاپان پرل بارپر پر حملے کے بعد جشن میں مشغول تھا ۔ نیوکلر بم کی تخلیق نے گیم کے اصول اس طرح بدلے کہ جاپان نہ صرف چاروں شانے چت ہوگیا بلکہ جاپان نے اپنے آئین میں جنگ کے لیے فوج رکھنے سے توبہ کرلی
ہماری دلی خواہش تو ہے کہ چاینا امریکہ سے آگے نکلے اور امریکہ تباہ برباد ہو لیکن یہ ہماری خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے
آخر کیوں چائنا سائنس اور تحقیق میں پیچھے ہیں اگر آپ سائنس میں حاصل کیے گئے نوبل پرایز کی تعداد کو دیکھیں تو چائنا ٹاپ ٹن میں بھی نظر نہیں آتا اور ٹاپ ٹن پر وہی ممالک براجمان ہیں جہاں جمہوریت ، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی ہے ۔ چائنا نے ابتک سائنس میں صرف 5 نوبل پرائز لیے ہیں اور اس کے مقابلے میں امریکہ نے 276 ، برطانیہ نے 89 اور جرمنی نے 72 نوبل پرائز حاصل کیے ہیں
ایک آئن سٹائن یا ایک سٹیفن ہاکنگ نوع انسانی کی تاریخ بدلنے پر قادر ہوتاہے ۔ ہمیں فرشی سلام کرنے والوں دربانوں کے بجائے سائنسدان پیدا کرنے ہیں
کسی معاشرے میں سایئنسدان اسی وقت پیدا ہونگے جہاں تحقیق کا رحجان ہوگا ۔ اور تحقیق کا رحجان صرف وہاں ہوگا جہاں معاشرے میں جذباتیت کے بجائے منطقی طور پر سوچنے کا رحجان ہوگا اور منطقی سوچ وہاں جنم لے گی جہاں انسانی ذہن آزادی کے تصور سے شرشار ہوگا۔ جہاں آزادی اظہار پر پابندی نہ ہوگی ۔ جہاں خوف کی حکمرانی نہ ہوگی اور جہاں طاقت اور خوف کا راج ہوگا ۔ وہاں جہالت کی فیکٹریاں کھلیں گی۔ جو ہر نئ سوچ کو پیدا ہونے سے پہلے ہی تہس نہس کردیں گی۔