مینار پاکستان پر لڑکی کو ہراساں کرنے کے واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے
ستم ظریفی یہ ہے کہ جب بھی اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے ہے دو انتہا پسندانہ موقف سامنے آتے ہیں ایک طرف لبرل اور ترقی پسند طبقہ بنیاد پرست اور رجعت پسند طبقے سے اپنی نفرت کا موقع ضائع نہیں کرتے
بجائے ایسے واقعے کے اسباب اور ان کے تدارک کے بارے میں غور و فکر کرنے کے وہ اپنی توپوں کا رخ ان کی طرف کر دیتے ہیں اور ماحول کو پراگندہ کرتے ہیں
دوسری طرف رجعت پسند طبقے کی ساری کوشش یہی ہوتی ہے کہ کہ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اسی کو قصوروار گردانا جائے اور ایسے عجیب و غریب دلائل پیش کرتا ہے کہ سر پیٹنے کو دل کرتا ہے
سوشل میڈیا پر دو مخالف ٹرینڈ چلنا شروع ہو جاتے ہیں ان کا واحد مقصد ایک دوسرے کو ذلیل کرنا اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا
یہ واقعہ کہیں دور پسماندہ علاقے میں نہیں ہوا بلکہ پاکستان کے مرکزی شہر اور صوبائی دارالحکومت میں ہوا ہے اور یہ لوگ پاکستان کے عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں اور عوام کی اکثریت کی سوچ کو ظاہر کر رہے. ہیں۔ اور یہ ظاہر کرہا ہے کہ ہم اب مجموعی طور پر انسانیت کی سطح سے گر کر حیوان بن چکے ہیں
آج ہم ان وجوہات کے بارے میں غور کریں گے جو ایسے واقعات کا باعث بنتی ہیں۔
1۔سرمایہ دارانہ نظام اور اخلاقی اقدار کا زوال
سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی مقصد ہر صورت میں سرمائے کا حصول ہے ہے اور یہ فرد کو سرمائے کے حصول اور ذاتی خواہشات کے فروغ کا باعث بنتا ہے اور اس طرح خود غرضی اور نفس پرستی کو فروغ دیتا ہے اور اس کشمکش میں معاشرے کی اخلاقی اقدار تباہ و برباد ہو جاتی ہے
ہمارے سیاسی معاشرتی و سماجی رہنماؤں کو چاہیے تھا کہ وہ وہ سرمایہ درانہ نظام کے منفی اثرات کے سدباب کے لیے کوئی طریقہ کار اور پالیسی وضع کرتے لیکن انہوں نے اس بابت مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہیں۔
2. ریاست کا آزادی سے لیکر آج تک انتہاپسندانہ بیانیہ کا فروغ
قیام پاکستان سے لے کر آج تک ریاست گروہی اور سطحی مفادات کے لیے معاشرے میں انتہا پسندانہ اور رجعت پسندانہ خیالات کو فروغ دیتی رہی ہے
اور خصوصی طور پر مخالف جنس کی رہنماؤں کو ان کی جنس کی بنا پر ٹارگٹ کیا گیا ہے چاہے یہ فاطمہ علی جناح ہو یا بے نظیر بھٹو ہو یا مریم نواز ہوں یا کوئ مخالف بیانیہ کو سپورٹ کرنے والی صحافی ہو ان کی کردار کشی کرنے میں ریاست پیش پیش رہی .
3. قانون کی حکمرانی کے بجائے طاقت کا نظام
پاکستان کے قیام کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ذاتی و گروہی مفادات کے لیے نوآبادیاتی دور کی نظام کو عوام پر مسلط رکھا اور تقسیم ، طاقت اور خوف کے ذریعے حکومت کرنے کے کلچر کو مزید فروغ دیا
جاگیرداری اور افسر شاہی کو فروغ دیا گیا اور آئین اور قانون کی حکمرانی کے لیے کبھی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی جس کے وجہ سے عوام کی اورینٹیشن بھی طاقت کے نظام پر ہو گئی ہے اور وہ بھی اپنے ذاتی و گروہی مفادات کے لیے طاقت کے استعمال کو حق بجانب سمجھتے ہیں ۔
4. انٹرنٹ اور شوشل میڈیا کا فروغ
انٹرنیٹ کی ترقی اور سوشل میڈیا کے فروغ نے عوام کو کتاب اور مطالعہ سے دور کر دیا ہے اور انکی تصور اور غور و فکر کی صلاحیت کو محدود کیا ہے اور بنیاد پرستانہ او خود غرضانہ ذہن سازی کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
5. مردانہ اور مذہبی معاشرے کے دوغلے اصول
سیاسی و سماجی طور پر مرد کی برتری کے کلچر نے جنس مخالف کے لیے عزت اور برابری کے خیالات کے بجائے منافقانہ رویوں کو فروغ دیا ہے
مذہبی طبقے نے بھی ہر نئی بات اور ایجاد کو ریجکٹ کرنے کے کلچر کو فروغ دیا ہے جس کی وجہ سے عملی زندگی اور مذہبی زندگی میں انتہائی فرق آچکا ہے اور اس نے بھی منافقانہ رویوں کو فروغ دیا ہے
اب لوگ بہت آسانی سے اپنے گھر کی عورتوں اور دوسری عورتوں کے لئے علیحدہ علیحدہ اصول بنا لیتے ہیں اور عورتوں کو استحصال کا نشانہ بنانے کو اپنا حق سمجھتے ہیں
6. مخلوط ماحول اور مخالف جنس سے انٹرایکشن کی کمی
اگر اسلام کے ابتدائی دور کا جائزہ لیا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت عورت اور مرد اکٹھے نماز پڑھتے تھے اور اکٹھے ہی بیت اللہ کا طواف کرتے تھے اور اس وقت مرد اور عورت کو اپنی جنسی ضروریات پوری کرنے کے بھی مناسب شرعی مواقع موجود تھے
لیکن یہاں پاکستان میں مرد اور عورت کے مخلوط ماحول پر بے جا پابندیوں کا سامنا ہے اور نوجوانوں کی جنسی ضروریات پورا کرنے کے مناسب قانونی مواقع کم ہیں
7. تعلیم اور میڈیا کا کردار
ہمارا تعلیمی نظام فرد کی کردار سازی کرنے کے بجائے اسے صرف سرمایہ دارانہ نظام کا پرزہ بنانے میں اپنی توانائیاں صرف کر رہا ہے اور طالب علم اپنا مستقبل بنانے کے چکر میں اچھے نمبر حاصل کرنے کی دوڑ میں لگ جاتا ہے اور اس طرح طالب علم میں اخلاقی اقدار کے بجاۓ ذاتی مفاد کو فروغ دیتا ہے
ہمارا میڈیا بھی ریٹنگ کے چکروں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر خود غرضانہ اور سفلی جذبات کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے اور عوام کی کردار سازی کے فرض سے غفلت برت رہا ہے