لاہور میں رکشہ سوار فیملی سے بدسلوکی کے کیس میں ملزمان راشد محمود اور سمیع اللّٰہ کو گرفتار کرلیا گیا ہے، لیکن مطابق پولیس ذرائع کے مطابق متاثرہ لڑکی نے پولیس کو خود فون کر کے منظر عام پر آنے سے معذرت کی ہے ۔
پولیس کی تفتیشی ٹیم لڑکی کو ملزمان کی شناخت کے لئے منانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے، پولیس افسران نے لڑکی کو یہ یقین دہانی بھی کروائی ہے کہ ملزمان کی شناخت کے بعد پولیس خود کیس لڑے گی۔ (روزنامہ جنگ 23 اگست ، 2021)
اپنے وطن میں قانون کی بالادستی کی یہ صورتحال ہے کہ ستر فیصد سے زیادہ جرائم میں لوگ انصاف کے اداروں سے رابطہ کرنا ہی گوارا نہیں کرتے اور اپنے طور پر مسلئے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جو انصاف کے اداروں کے پاس اپنی شکایت درج کراتے ہیں ان میں صرف سات فیصد ہی عدلیہ تک جانے کی جسارت کرتے ہیں ۔ سولہ فیصد پولیس کو رجوع کرتے ہیں اور صرف پانچ فیصد دیگر سرکاری اداروں کو رجوع کرتے ہیں (ورلڈ جسٹس پروجیکٹ رپورٹ ٢٠١٦)۔
یعنی عوام کی دو تہائ اکثریت سے زائد آبادی سرکار پر عدم اعتماد کررہی ہے ۔ جب اتنی بڑی سرکاری مشینری عوام کو انصاف دینے میں ناکام ہوچکی ہے تو پھر اس سے جان چھڑانی چاہیے اور عوام کو اپنے روائتی طریقوں سے امن و آمان بحال رکھنے کا موقع دیا جانا چاہیے اور ملک کو اتنی بڑی سرکاری مشینری کو قائم رکھنے کے لیے بھاری قرضوں سے نجات حاصل کرنی چاہیے ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سرکاری مشینری کی غیر موجودگی میں عوام کا استحصال کسی طرح ہوگا۔ ان اداروں کا واحد مقصد یہی نظر آتا ہے کہ دو فیصد اقلیت کے مفاد کے لیے اٹھانوے ٩٨٪ اکثریت کا استحصال کیا جائے ۔