فراز احمد ایس ایس پی انویسٹیگیشن فیصل آباد فراز احمد صاحب فرماتے ہیں کہ ہم نے ان عورتوں کی حوصلہ افزائ کی پہلے وہ کاروائ پر راضی نہ تھی ہم نے انکو حوصلہ دیا تو راضی ہوئیں اور جو بجوم ایک خود انصاف کرتا ہے اس کو روکنے کے لیے کہ جو قانونی ادارے بنے ہوئے ہیں انکو رپورٹ کریں نہ کہ خود اپنی عدالت لگالیں اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے ایف آئ آر دی اور فورا ہی تین لوگ جو وہاں تھے انکو گرفتار کیا ایک دو جو فرار ہوگئے تھے انکو ہم نے راتوں رات ہی ہم نے پانچ چھ گھنٹوں میں پانچ کے پانچ جو تشدد کرتے نظر آرہے تھے انکو گرفتار کرلیا باقی جو نامعلوم ہیں انکے ساتھ ہماری چیزیں چل رہی ہیں ۔ وڈیوز سے ہم انکو اڈینٹیفائ کرہے ہیں اور انکے فوٹیج بھی ہم نے نادرا کو بھجوائے ہیں باقی وڈیوز ہیں انکو ہر طرح سے پرکھا جا رہا ہے
موصوف فرماتے ہیں کہ جہاں تک سوال ہے کہ خود برہنہ ہوئی ہیں تو اس کے بعد ہجوم میں کوئی شخص نہیں تھا جو ان کی جو بے پردگی یا عصمت درازی ہو رہی تھی اس کو روکتا بنیادی طور پر یہ رویہ ہے جس کی ہم نے حوصلے شکنی کرنی ہے
پنجاب وومین پروٹیکشن اتھارٹی کی چیئرپرسن فاطمہ چدھڑ فرماتی ہیں کہ کہیں بھی اس قسم کا واقعہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کی انویسٹیگیشن ہونی چاہیے اور جہاں تک ان خواتین کا تعلق ہے تو اس کا بھی یہ ہے کہ انہوں نے چوری کی تھی یا نہیں کی تھی جو شاپ کیپر تھا اس کو چاہیے تھا وہ 15 پر کال کرتا وہ پولیس کو بلاتا اور پولیس کے حوالے انکو کرتا کہ میری یہ چیز چرائ ہے
میں نے جو سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی ہے اس کو صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ یہ چوری کرنے کے لیے اسے دکان میں داخل ہوئی اور صاف طور پر دکان میں سے کچھ چیزیں انہوں نے غالبا رقم اٹھائی ہے
دکاندار جو اکیلا تھا اس کا ردعمل فوری تھا جیسے اس نے ان کو پہچان لیا ہے اور وہ باہر نکل کے دروازہ بند کرتا ہے اور لوگوں کو بلاتا ہے
اور یہ عورتیں زبردستی دروازے کو دھکا دے کر باہر نکل جاتی ہیں
دوکاندار ان کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے اور ایک عورت کو کو پکڑ لیتا ہے اور اس کو بٹھا لیتا ہے
دوسری عورتیں اس کو چھڑانے کے لیے واپس آتی ہیں اورایک عورت خود کپڑے اتار تی ہیں اور اس کوشش میں پکڑی گئی عورت دکاندار پر حملہ آور ہوتی ہے جس کے جواب میں میں دکان دار بھی اس پر تشدد کرتا ہے
اب ایس ایس پی صاحب اور محترمہ فاطمہ چدھڑ سے بندہ پوچھے کہ آپ یہ بتاؤ کہ اگر ایک سو چوریا ں ہوں تو کتنے لوگ پولیس سے رابطہ کرتے ہیں اسکی شرح کیا ہے جو کہ دس پرسنٹ سے بھی کم ہے اور اگر جن چوریوں کی ایف آئی آر درج ہوتی ہے اس میں سے کتنے لوگوں کو ان کی چوری واپس ملتی ہے اس کی شرح کیا ہے جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے
موصوف ایس پی صاحب یہ بھی بتا دیں کہ کے دیگر جرائم میں پولیس کی مقدمات درج کرنے اور ملزمان کو گرفتار کرنے کی شرح کیا ہے اور کتنے مقدموں میں ویڈیو کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور نادرہ سے رابطہ کیا جاتا ہے
مطلب یہ ہے کہ کہ مجرم کون ہے اس کا فیصلہ پولیس قانون و انصاف کے مطابق نہیں کر تی بلکہ میڈیا یا حکومتی پریشر کے تحت کرتی ہے قانون و انصاف جائے بھاڑ میں
فراز احمد صاحب اور فاطمہ صاحبہ آپ ایک کام کریں ایک قانون پاس کروائیں کہ کہ اگر کوئی عورت چوری کرے گی تو حکومت ضمانت دیتی ہے کہ وہ سات دنوں کے اندر چوری کے برابر نقصان کا ازالہ کرے گی اور حکومت خود پورا معاوضہ ادا کرے گی اس قانون کے بعد اگر کوئی عورت کو ہاتھ لگائے تو پھر اسے الٹا لٹکا دینا