حالیی عدم اعتماد کی تحریک نے اس ملک کے سیاستدانوں کو بے نقاب کردیا ہے اور اس حمام میں سب ننگے ہے ۔ کسی کو بھی پاکستان کے مستقبل اور عوام سے غرض نہیں ۔ یہ ذاتی مفاد اور ذاتی اقتدار کی جنگ ہے اور اسکی واحد ذمہ دار وہ طاقت ہے جس نے اس ملک سے نظریہ یا آصول کی سیاست کو اتنی دفعہ تہس نہس کیا ہے کہ اب آصول یا نظریہ کا نام لیوا کوئ نہیں ملتا
عمران خان پلے بوائے رہا ہے اور اس میں کوئ دو رائے نہیں ۔ اور کسی انسان کی عادت نہیں جاتی ۔ انسان مرتے دم تک اسی عادت کا اسیر رہتا ہے ۔ ہاں اس عادت کی نوعیت وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے ۔ پلے بوائے کیا کرتا ہے ۔ اپنی جنسی تسکین کے لیے اپنی ظاہری خوبصورتی اور لچھے دار باتوں کے ذریعے شکار کو اپنے دام میں پھنساتا ہے اور اپنی جنسی تسکین کے بعد اسے ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتا ہے۔ اسے شکار سے صرف اپنی ذاتی تسکین کا حصول ہی درکار ہوتا ہے اور وہ وفا یا دوسروں کا ساتھ نبھانے جیسے فرسودہ خیالات کو اپنے پاس نہیں بھٹکنے دیتا ۔ بار بار کے اس پروسس سے وہ اپنی ذات کو بہت زیادہ اہمیت دینا شروع کردیتا ہے اور انسانیت اور برابری جیسے اصولوں سے کوسوں دور چلا جاتا ہے ۔
عمران خان کی زندگی میں سیتا وائیٹ کی مثال لیں ۔ عمران خان اسے استعمال کرنے کے بعد اپنی بیٹی کو بھی اپنی شناخت دینے سے انکاری ہوجاتا ہے ۔ اور وہ بیچاری اس خواہش کی تکمیل میں اس جہان سے کوچ کرجاتی ہے کہ عمران خان اپنی بیٹی کو اپنی شناخت دے دے
اگر ہم عمران خان کے کارناموں کا تجزیہ کریں جس میں ورلڈ کپ ، شوکت خانم میموریل یا سیاست میں وزیر اعظم تک پہنچنا تو اس میں بھی انسانیت اور برابری کے بجائے اپنی ذات کی پرشتش نظر آئے گی۔ ورلڈکپ جیتنے کے بعد جب اسے تقریر کے لیے بلایا جاتا ہے تو وہ اپنی تقریر میں اپنی ٹیم کو بھول جاتا ہے اور ورلڈ کپ جیتنے کو اپنی ذاتی کامیابی کہتا ہے
اسی طرح شوکت خانم ہسپتال کے لیے بھی انسانیت کے ساتھ ساتھ اپنی بڑھی ہوئ ذات کی پرشتش کا عمل دخل نظر آتا ہے ۔ اور اگر وزیر اعظم کے طور پر دیکھین تو معلوم ہوگا کہ عمران خان کی نظر میں پاکستان کا مفاد عمران خان کی اقتدار کی ذاتی خواہش کے آگے کچھ بھی نہیں ہے ۔ اور وہ اپنی ذاتی اقتدار کی خواہش کے لیے سب کچھ تہس نہس کرنے کو تیار ہے ۔
اپنی ذاتی اقتدار کی خواہش کے لیے وہ اپنی قوم کے ساتھ وہ کچھ کرنا چاہتا ہے جو اپنی جوانی میں وہ پلے بوائے کے طور اپنے شکار کے ساتھ کرتا تھا ۔ اب یہ قوم اس کے لیے اپنے ماضی شکار کی مانند ہے ۔ اب ایک ماہر شکاری کی مانند وہ جانتا ہے کہ اپنے شکار کو اپنے چنگل میں کس طرح پھنسانا ہے ۔ اسے پتا ہے کہ اس کا شکار دلیل کے بجائے جذبات کو ترجیح دیتا ہے ۔ وہ جس طرح مرضی یوٹرن لیتا رہے ۔ یہ قوم دماغ کے بجائے جذبات کو اہمیت دے گی ۔ یہ شکار مذہب کے نام پر بے وقوف بنتی آئی ہے اور بنتی رہے گی ۔ یہ شکار امریکہ جیسے فرضی دشمنوں کے ساتھ ٹکرائو کے تصور کے ہیروازم میں مبتلا ہے ۔ اور اسلام اور امریکہ کا صرف نام لینے سے ہی اس کا شکار سب کچھ بھول کر اسکے چنگل میں پھنس جائے گا اور وہ یہی کچھ کرہا ہے ۔
یہ جانتے ہوئے کہ آزادی اور خودمختاری معاش کے ساتھ منسلک ہے اور پاکستان کا معاش حتی کے سٹیٹ بینک تک اس وقت آئ یم ایف کے چنگل میں ہے اور مستقبل قریب میں اس چنگل سے نکلنے کا کوئ راستہ نہ ہے ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اس معاشی چنگل کی وجہ سے غیروں کے کنٹرول میں ہے ۔ یہاں تک ملائشیا جانے یا نہ جانے کے فیصلے بھی دوسرا کوئ ملک کرتا ہے ۔ پاکستان کو معاشی طور پر آزاد کرنا ایک طویل اور صبر آزما سفر ہے جس کے لیے جذباتیت اور گالم گلوچ کے بجائے قومی ہم آہنگی کی ضرورت ہے ۔ لیکن شکاری کو اس ے کوئ غرض نہیں اسے اپنے شکار کو لبھانا ہے اس کے لیے وہ اسلام اور امریکہ کا نام استعمال کرہا ہے اسے اپنی ذاتی خواہش کی تکمیل سے غرض ہے ۔ چاہے ایک نسل اسکے پیچھے انتہا پسند ہوکر اپنی تباہی کی سفر تیزی سے طے کرہی ہو