تحریک انصاف کی سیاسی طاقت اوورسیز اور شہری علاقوں کا پڑھا لکھا متوسط اور خوشحال طبقہ ہے ۔ جبکہ نواز شریف کی سیاسی طاقت سرمایہ دار اور کاروباری طبقہ ہے جو کہ اتنا تعلیم یافتہ نہ ہے اور پیپلز پارٹی کی سیاسی طاقت جاگیردار ، پیر اور سردار ہیں ۔ جہاں تک بات ہے اس ملک کی اکثریتی آبادی کی جو کہ غریب مزدور اور کسان ہیں ان میں ایک گروہ برادری ازم اور گروہی سیاست کا شکار ہیں اور اپنے علاقے میں بااثر شخصیات کے زیر اثر ہوتے ہیں اور دوسرا گروہ جو کہ نسبتا آزاد اور خوشحال ہوتا ہے وہ وطن پرستی اور مذبی ہمیت کے نام پر پروپیگنڈے کے زیر اثر ان تینوں پارٹیوں میں منقسم ہے
ویسے تو ساری قوم ہی جذباتیت اور انتہاپسندی کا شکار ہے لیکن انگریزیوں کے دیے گئے تعلیمی نظام سے نکلنے والے کچھ اضافی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں ۔ ہمارا تعلیمی نظام جس کی بنیاد انگریزی زبان یا دوسری غیر علاقائ زبان کو اپنی مادری زبان سے زیادہ اہمیت دینے ، غلامانہ ذہنیت پیدا کرنے، معاشرے میں کلاسز کی بنیاد پر تعصب پیدا کرنے پر ہے جس کی وجہ یہ اس نظام سے فیض یافتہ طالب علم یورپی اقوام سے احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور اپنے کسانوں اور مزدوروں کے بارے میں ان کا رویہ متکبرانہ اور احساس برتری والا ہوتا ہے اور یہ غیروں سے احساس کمتری کا شکار ہوکر ان کی نقالی کرنا شروع کردیتے ہیں اور اپنے لوگوں کے سامنے یہ اپنے آپ کو عقل کل تصور کرنا شروع کردیتے ہیں اور ہر کام میں یورپ کی مثال دیتے ہیں اور جب اپنی بات ہوتی ہے تو اپنے مفاد کے لیے یہ ہر قسم کے اصولوں سے اپنے آپ کو برتر تصور کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر مشرف کے خلاف وکلا کی تحریک کا بہت ذکر کیا جاتا ہے لیکن ان وکلا کا اپنے غریب اور کسان گاہگوں کے ساتھ برتاؤ دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ لوگ ان کا انتہائ استحصال کرتے ہیں اور ان کو اپنے برابر انسان تصور نہ کرتے ہیں ان کے واش روم اور کینٹین عام عوام سے علیحدہ ہوتے ہیں اور انکے ساتھ انکا رویہ متکبرانہ اور معتصبانہ ہوتا ہے ۔ یہی حال ٍڈاکٹروں کا ہئ وہ بھی عام عوام کے ساتھ انتہائ ذلت آمیز سلوک کرتے ہیں اور سرکاری ملازمین تو استحصال اور کرپشن میں سب سے آگے ہی یہ عام عوام یعنی غریب مزدور اور کسان پاکستان کی آبادی کا اسی فیصد سے بھی زیادہ ہے لیکن سیاسی طور پر ان کی طاقت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ یہ استحصالی طبقہ ہر جگہ قابض ہے اور اس اکثریت کو کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری موقع کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا ۔ یہ لوگ صحافت اور شوبز پر بھی قابض ہیں اور اچھے مواقع کی وجہ سے یہ اسٹیبلشمنٹ اور سول بیوروکریسی میں بھی قابض ہیں
یعنی کہ اس شہری طبقے اور اورسیز طبقے نے ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور عام کسان یا مزدور کی آواز سننے والا کوئ نہیں ۔ جتنا استحصال عمران خان کے دور میں عام لوگوں کا ہوا ہے اور جتنی نفرت وہ اس عمرانی دور سے کرتے ہیں کہ اگر ان کی اکثریت کو اگر سیاسی طور پر میڈیا میں موقع ملے تو اس وقت چلنے والے سارے اشوز ہوا میں اڑ جائیں اور عمران خان یا اس کی ٹیم کو ہر ممبر اپنی شکلیں چھپاتا پھرے ۔ لیکن اس طبقے کی کوئ سیاسی طاقت نہ ہے جس کی وجہ سے انکا مقدر ذلیل ہونا ہی ہے
مندرجہ ذیل کمنٹس پڑھیں جو کہ ٹویٹر سے کاپی کیے گئے ہیں
Blunt
@Shinamuller
“برصغیر کی گھٹیا مینٹلٹی والی مڈل کلاس کی چیغیں سننے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے ۔ اس اربن آبادی نے شہروں کا ستیاناس کیا ہوا ہے ، ہر طرف گند ، آلودگی پھیلانے میں اسکا کوئی ثانی نہیں! گیس بجلی ، راشن سارا کچھ ہڑپ جاتی اور کسان مزدور کا ناصرف مذاق اڑاتی بلکہ انہیں انتہائی حقارت سے دیکھتی!
درسگاہوں سے لیکر ہسپتالوں تک ہر قسم کی اسے سہولیات اپنے گلی محلے کی نکڑ پر ملتی ہیں ، تھوڑی سی بھی کمی لگے تو چیخنا شروع کر دیتی ووٹ کے نام پر یہ اس کو ووٹ دیتی جو ان گھر کا کوڑا بھی خود ٹھکانے لگانے کا وعدہ کرے ۔ اس آبادی نے آج تک جو بیچارے بڑے شہروں میں نہیں رہتے ان کے لئےکبھی گلی کے کونے نکڑ پر درسگاہوں ، ہسپتالوں گیس بجلی کے کنکشنز پبلک ٹرانسپورٹ روزگار کا مطالبہ نہیں کیا!
ان کی گلی محلے میں جاکر دیکھو گھر کی صفائی غریب عورتوں کو دو تین ہزار روپے دے کر کرواتی اور گلی میں کوڑا پھینکوانا اپنا فرض سمجھتی !!
ان کو معلوم ہی نہیں ہے دور دراز کے دیہاتوں میں رہنے والی آبادی کس حال میں زندگی گزارتی ۔
اس کلاس کا تعفن دیکھنا ہے تو راولپنڈی کے نالہ لئی اور کراچی کے گجر نالے سے لیکر سمندر میں جو یہ گند پھینتکی وہ دیکھیں جاکر ، لاہور میں راوی کا حشر دیکھیں جو کر یہ خود کو پڑھی لکھی آبادی سمجھتی ۔ ان کو گلی محلے کی نکڑ پر درسگاہیں اور ہسپتال ، پبلک ٹرانسپورٹ دینے کا یہ صلہ دیا!”
یہ نواز شریف فیملی کی کرپشن یا اقربا پروری نہیں بلکہ یہ کلاس کا فرق ہے ۔ شریف فیملی یا بھٹو فیملی اس کلاس یا طبقے کی نمائندگی کرتی ہے جسے یہ طبقہ حقیر جانتا ہے اور یہ برداشت نہیں کرتا کہ یہاں کے مقامی لوگ ان پر حکومت کریں بلکہ وہ ایسے لوگوں کو اپنا حکمران دیکھنا چاہتے ہیں جن کا طرز زندگی یورپی یا امریکی ہو مثال کے طور پر کبھی جرنل مشرف اس طبقے کے پسندیدہ تھے اور اب عمران خان ہیں ۔ اور پیچھے جائیں تو قائد اعظم کا طرز زندگی بھی انگریزوں کی طرز پر تھا ۔ اس طبقے کے لیے یہاں کے مقامی حکمرانوں کو تسلیم کرنا بہت مشکل کام ہے ۔ چلیں ایک مثال کے ذریعے سمجھنے کی کو شش کرتے ہیں ۔ ایک امریکی جب آپ کے ملک میں سیر کرنے آتا ہے تو ایرپورٹ انتظامیہ سے لے کر عام شہری کا اس سے برتاؤ کا مشاہدہ کریں ۔ ہر کوئ اس کی چاپلوسی پر کمر بستہ ہوگا اس کے مقابلے میں جب ایک پاکستانی مزدور باہر سے اپنے ملک آتا ہے تو اس کے ساتھ ایرپورٹ انتظامیہ اور دیگر شہریوں کے سلوک کا مشاہدہ کریں ۔ اور یہ جانتے ہوئے کہ اس مزدور کے قیمتی زرمبادلہ سے ہی ملک چل رہا ہے ۔ یہ رویہ صاف طور پر غلامانہ ذہنیت اور احساس کمتری کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے اس طبقے کا مقامی رہناؤں کی طرف رویہ تحقیر آمیز ہوتا ہے اور یہ اپنے آپ کو عقل کل تصور کرتے ہیں ۔
نواز شریف فیملی یا بھٹو فیملی دودھ کے دھلے نہیں ہیں ۔ معاشرے میں پائ جانے والی منافقت ، اقربا پروری اور کرپشن ان میں بھی پائ جاتی ہے لیکن کیا عمران خان کے دور میں سب سے زیادہ کرپشن کا انڈیکس نہیں بڑھا۔ آصل مسلہ ک احساس کمتری اور غلامانہ ذہنیت ہے اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والا طبقہ جسے عام لوگوں سے کوئ سروکار نہیں اور نہ ہی ان کو اپنے معاشرے کے معاشی، سماجی اور سیاسی حرکیات کا ادراک ہے وہ یورپ کی نقالی میں سب کچھ تہس نہس کرتے ہوئے ہر صورت میں مقامی نمائندوں کو اوپر نہیں آنے دیتا چاہتے اس مقصد کے لیے انہیں آئین و قانون کو پس پشت ڈالنا ہی کیوں نہ پڑے