باجوہ صاحب
اس ملک کے عام لوگ غربت اور تنگ دستی کی زندگی گزاررہے ہیں اور ان کی اس ملک میں کوئ سیاسی آواز یا سیاسی طاقت نہیں ۔ کیونکہ ناانصافی اور معاشی تنگ دستی کی وجہ سے وہ بہت مشکل سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اپنے مٹ جانے کے خوف کی وجہ سے ملکی سیاست سے کوسوں دور ہیں ۔ اس ملک کی سیاسی پارٹیاں بشمول تحریک انصاف ، مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کے سیاسی مفادات صرف الیکشن والے دنوں میں اس اکثریت سے وابستہ ہیں اس کے بعد ان کا ان سے کوئ تعلق نہ ہے مسلم لیگ ن شہری کاروباری لوگوں کے مفادات کی نگہبان ہے جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی جاگیرداروں کے مفادات کا خیال رکھتی ہے اور تحریک انصاف شہری متوسط کی نمائندہ ہے اس لیے اس اکثریت جو کہ غریب مزدور اور کسانوں پر مشتمل ہے اور اس ملک کی اسی فیصد آبادی سے زائد ہے ان کا کوئ پرسان حال نہیں یہ اکثریت بے یارومددگار ہے
اسٹیبلشمنٹ کا اس ملک میں ایک سیاسی رول رہا ہے اور اس بارے میں کوئ دو رائے نہیں ہیں ۔ موجودہ پارلیمانی آئین کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کا ٹکراؤ ذوالفقار علی بھٹو سے ہوا اور اسکے بعد بے نظیر بھٹو سے ہوا اور دونوں کو اپنی جان گنوانی پڑی لیکن پیپلز پارٹی کی اصل سیاسی طاقت سندھ تھی اور اسٹیبلشمنٹ کا زیادہ تر تعلق پنجاب اور صوبہ پختونخواہ سے تھا ۔ اس لیے پیپلز پارٹی کی طرف سے مزاحمت کو کچلنے میں کسی تردد کا مظاہرہ نہ کیا گیا۔
اس کے بعد دوسرا چیلنج اسٹیبلشمنٹ کو نواز شریف کی طرف سے پیش آیا جب انہوں نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا اور کھلم کھلا جلسوں میں آپ کا نام لیا ۔ نواز شریف کی سیاسی طاقت پنجاب کی کاروباری برادری اور پنجاب میں نسبتا کم پڑھے لکھے لوگ تھے اور اسٹیبلشمنٹ کا تعلق بھی زیادہ تر پنجاب سے تھا اور دوسرا نواز شریف کو ووٹر خاموش اور زیادہ ایکٹو نہ تھا اور اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا زیادہ تر تعلق تحریک انصاف سے تھا اس لیے نواز شریف کی طرف سے کوئ زیادہ مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑا ۔ لیکن اب تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کا ٹکراؤ ہوا ہے تو خطرناک صورتحال ہے کیونکہ تحریک انصاف کا ووٹر نوجون اور متحرک ہے اور اس کا تعلق متوسط شہری طبقے اور سول اور ملٹری خاندانوں سے ہےاور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ستر سالوں سے مذہب اور وطن پرستی کو چورن بیچنے کی وجہ سے یہ طبقہ انتہاپسندانہ خیالات کا حامل ہے اوپر سے شوشل میڈیا نے ان کو مزید تنگ نظر بنا دیا ہے ۔ یاد رہے کہ یہ متوسط شہری طبقہ ایک فیصد سے بڑھ کر پندرہ فیصد تک پہنچ چکا ہے اور ایک بھرپور سیاسی طاقت کا حامل ہے ۔ اور سول اور آرمی کے آفیسرز کا تعلق اسی طبقے سے ہے ۔ اب اس مفادات کے ٹکراؤ میں اسٹیبلشمنٹ کے اپنے اندر تقسیم کے خطرات ہیں اس لیے اس دفعہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے
اب تحریک انصاف یا عمران خان پر پابندی لگانے کی غلطی نہ کی جائے ۔ بلکہ معاشرے میں انتہاپسندانہ جذبات کے تدارک کے لیے کام کیا جائے جب تک معاشرے سے انتہاپسندانہ رویوں کا تدارک نہیں ہوجاتا ایک نیا شوشل کنٹریکٹ تشکیل دیا جائے جس میں اسٹیبلشمنٹ کو ایک مناسب سیاسی رول دیا جائے جو کہ ملک کی جمہوریت اور قانون کی بالادستی ، خارجہ پالیسی اور دفاعی پالیسی پر مشتمل ہو ۔ اگر آپ اس رول کو ادا کرنے سے معذرت کریں گے تو یاد رکھیں آنے والی حکومت ایک فاششٹ حکومت ہوگی جو نہ صرف ملک کے اداروں کا ستیاناس کرے گی بلکہ پاکستان کی تباہی کا باعث بنے گی ۔
جب اکثریت سیاسی شعور سے عاری ہے اور اپنے فیصلے برادری قبییلے کی بنا پر کررہی ہے تو یہ چیز ایک سیاسی خلا پیدا کرتی ہے
میرا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس خلا کو ایک اوپن شوشل کنٹریکٹ کے ذریعے پر کرے تو ایک منظم ادارے کے طور یہ سب سے مناسب ہے بجائے اس کے کہ کوئ جاگیردار یا فاششٹ اربن کلاس اس سیاسی خلا کو پر کرے
اور جب اسٹیبلشمنٹ آئینی و قانونی کردار کے نام پر پیچھے ہٹ جائے گی تو اس سیاسی خلا کو دوسری کوئ طاقت پر کرے گی
اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اب انتہاپسند اور فاششٹ اربن مڈل کلاس اور سول ملٹری خاندانوں کا الائینس اقتدار میں آئے گا۔ اس کلاس میں غریب کسانوں اور مزدوروں سے نفرت اور تعصب ہے اور یہ ایک استحصالی طبقہ ہے ۔ اور اس طبقے کا اقتدار میں آنااسٹیبلشمنت یا سرمایہ داروں کے حکومت میں آنے سے زیادہ خطرناک ہے ۔