پچھلے 70 سالوں سے ملک کی اشرافیہ اور حکمران طبقہ نے مل کر  عوام  کی جذباتی نوعیت اور ذہنی پسماندگی کو استعمال کرتے ہوئے انہیں تصوراتی اور خوش نما نعروں کے پیچھے لگا کر ان کا بہت بری طرح استحصال کیا ہے کبھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان خطرے میں ہے اور کبھی اسلام خطرے میں ہوتا ہے اور کبھی ہندوستان مردہ باد کا نعرہ لگا کر اپنے مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے اور عوام کا استحصال کیا جاتا ہے .
حقیقت میں ہمارا ملک پاکستان اس وقت عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے کرتا دھرتا ہوں اور یہاں ان کے نمائندوں کے چنگل میں بہت بری طرح جکڑا ہوا ہے  اور یہ عالمی اور ملکی سرمایہ دارانہ نظام کے نمائندے عوام کی جذباتیت اور ذہنی پسماندگی کو استعمال کرتے ہوئے انہیں بے وقوف بناتے ہیں اور ان کا بہت بری طرح استحصال کرتے ہیں۔
یہ اپنے ذاتی  مفادات ، خاندانی , سیاسی اور  گروہی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں  عام لوگ تحریک کا مقصد عام لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنا اور ان کی معاشی اور معاشرتی زندگی کو حقیقی طور پر بہتر بنانا ہے  اگر کوئی ماں غربت اور مہنگائی سے تنگ آکر اپنے بچوں سمیت دریا میں کود جاتی ہے یا کوئی باپ اپنے بچوں کی خواہشات اور ضروریات کے سامنے بے بس ہو کر اپنے گلے میں   پھندا ڈال لیتا ہے تو ان خوشنما نعروں کی حقیقت ہم پر عیاں ہو جانی چاہیے  لیکن انتہائی جذباتیت اور ذہنی پسماندگی نے  عوام کے حقیقی مسائل سمجھنے میں رکاوٹ کا کردار ادا کیا ہے   اور عوام ان رہنماؤں کے خوشنما نعروں کے پیچھے اپنے آپ  کا استحصال کرتے ہیں
عام عوام کے اصل مسائل  تعلیم  صحت انصاف  روزگار  اور ماحول یا صاف پانی ہیں نہ کہ امریکہ مردہ باد یا ہندوستانی  مردہ باد کے نعرے  ۔۔۔
اگر کسی ملک کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہوں اور ملک کی اکثریت دفاع پر ملکی بجٹ کا بڑا حصہ خرچ کر رہی ہو اور لوگ خودکشیاں کر رہے ہو تو لازمی کہیں کچھ غلط ہو رہا ہے کسی کا حق مارا جارہا ہے کسی کا استحصال کیا جا رہا ہے
جب کوئی ریاست اپنے بھوک سے بلکتے بچوں اور پیاس سے مرتے جانوروں کو پانی مہیا نہیں کر سکتی تو ایسی ریاست کو جدید ہتھیاروں پر اربوں روپے یا اپنے دفاع پر اربوں روپے خرچ کرنے کا کیا جواز ہے
عام لوگ تحریک کے نزدیک کسی بھی ریاست کی کارکردگی جانچنے کا واحد طریقہ اس ریاست کے عوام کی صحت تعلیم روزگار انصاف اور ماحول کی صورتحال کو جانچنا ہے اور اس کے لیے بین الاقوامی ادارے یونائیٹڈ نیشن ہر سال ہر ملک کے عوام کا معیار زندگی کے بارے میں درجہ بندی کرتے ہیں جس سے اس  ملک کی کارکردگی اور اور پرفارمنس بالکل واضح ہو جاتی ہے اور پاکستان اس درجہ بندی میں ہمیشہ  نچلے درجے میں شامل رہا ہے
عام لوگ تحریک اس پر کام کرنا چاہتی ہے اور عوام کا معیار زندگی کو حقیقی طور پر بہتر بنانا چاہتی ہے اور عوام سے جذباتیت کے بجائے حقیقت پسندی کو فروغ دینا چاہتی ہے اور ذہنی پسماندگی اور غلامانہ سوچ کے خاتمے پر یقین رکھتی  ہے.

عام لوگ تحریک ترجیحی بنیادوں پر مندرجہ ذیل ایشوز پر کام کرنا چاہتی ہے

1. مادری زبان میں ابتدائی تعلیم
2.  قانون کی حکمران
3.  سوال کرنے کی آزادی
عام لوگ تحریک ایک ایسے معلوماتی سیاسی و معاشی نظام کی تشکیل کی جدوجہد کرے گی جس  سے عام لوگ مستفید ہوں اور ان کے ساتھ ساتھ عام لوگ تحریک اپنے ممبرز کے لیے کمیونیکیشن نیٹ ورک تشکیل دے گی تا کہ ٹیم ممبرز ایک نیٹ ورک سے منسلک ہوں اور آپس میں رابطے میں رہیں  اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے رہیں
 اگر پاکستانی سماج کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے بجائے طاقت کا نظام نافذ ہے
پاکستانی سماج کی نوعیت جاگیردارانہ طرز پر ہے
 لوگ جذباتیت اور گروپ اورینٹیشن کا شکار ہیں۔   مذہبی عقائد کی حکمرانی ، ذہنی پسماندگی،  غلامی اور اجتماعی سوچ کا فقدان ہے اور نتیجے کے طور پر پاکستانی سماج میں جمہوری رویوں کی کمی ہے ۔ جمہوریت بجائے عوام کی خدمت کے لیے عوام کے استحصال کا باعث بنتی ہے ۔
جگیردارانہ سماج کی خاصیت یہ ہے کہ اس سماج کے پروڈکٹ بھی  یعنی ایسے سماج کے ادارے اور شخصیات بھی اپنی نوعیت میں جاگیردارانہ سوچ کے حامل ہوں گے چاہے وہ سرکاری آفیسر ، سیاسی رہنما  ہوں یا خاندان کا سربراہ ان میں جاگیردارانہ سوچ کا غلبہ ہوگا
جمہوریت کا تعلق انسانی شعور کے ساتھ ہے اگر انسانی شعور ترقی یافتہ ہو گا تو اس کے نتیجے میں جمہوریت بھی اس ملک میں آئے گی لیکن اگر لوگ اجتماعی طور پر ترقی یافتہ نہ ہو نگے اور  پس ماندہ ہونگے  تو اس کے نتیجے میں استحصالی طاقتوں کو فروغ ملے گا اور عوام کی حالت مزید خراب ہو گی مثال کے طور پر اگر جانوروں پر جمہوریت نافذ کر دی جائے تو وہ اپنے مالک کا ہی انتخاب کرے گا اس طرح غلامانہ ذہنیت کا حامل اور ذہنی پسماندہ معاشرہ اپنے مزید استحصال کا باعث بنے گا اور جمہوری اداروں سے عوام کا  تعلق یا اعتماد کا رشتہ ٹوٹ جائے  گا
 جمہوری اداروں سے لاتعلقی کی بنیاد پر سیاسی خلا پیدا ہوتا ہے اور اس سیاسی خلا کو اسٹیبلشمنٹ اور دیگر سیاسی رہنما مل کر  عوام کے استحصال کے ذریعے اس خلا کو پر کرتے  ہیں اور عوام کے مفاد کی بجائے ذاتی وگروہی مفادات کی نگہبانی کرتے ہیں۔
اس خلا کو پر کرنے کے لیے منظم ادارے یعنی اسٹیبلشمنٹ پر کرتی ہے جس کی وجہ سے سیاسی حکمران طاقتور نہیں ہوتے اور اسٹیبلشمنٹ کے محتاج ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں یرغمال ہوتے رہتے ہیں
اگر بالفرض ہم اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے باہر بھی کر دیتے ہیں یا اسے کمزور کر دیتے ہیں تو اس سیاسی خلا کو پر کرنے کے لئے مذہبی جماعتیں آگے آجائیں گے کہ اور  اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کریں گے سیاسی جماعتوں کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا کیونکہ  یہ اصل طاقت  کی حامل نہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوازشریف کو کبھی جماعت اسلامی کی ضرورت ہوتی ہے اور کبھی مولانا فضل الرحمن کی
 انیس سو ستر کی دہائی میں جمہوری اداروں کو فروغ تھا جس کی وجہ سے عوام    عوامی سیاست سے منسلک ہوگئے لیکن اس کے بعد مذہبی  شدت پسندی کو عروج حاصل ہوا
 مذہب اور وطن پرستی کے نام پر عوام کو سیاسی رجحان کو  یرغمال بنایا گیا اور عوام کی جمہوری سوچ کو پروان نہیں چڑھنے دیا گیا۔
میرا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کریں جہاں انہیں دوبارہ اس طرح یرغمال نہ بنایا جا سکے اور انہیں دوبارہ مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔
اصل میں پاکستانی سماج میں جنگ دو طبقوں کے درمیان ہے ترقی پسند طبقہ عوام کی شعوری حالت کو بہتر کرنا جب کہ استحصالی طبقہ عوام کے اجتماعی شعوری زوال کے لئے کوشاں ہیں ۔
 استحصالی طبقہ عوام کو مسلسل خوف اور اور نفرت کی حالت میں رکھنا چاہتا ہے۔   اور عوام  کو وطن پرستی اور مذہب کے نام پر تقسیم اور جذباتی استحصال  کیا جاتا ہے
جو معاشرے میں تقسیم اور نفرت کو فروغ دیتی ہیں اور تشدد کے لیول کو بڑھاتی ہیں نتیجے کے طور پر ذہنی پسماندگی کا لیول بڑھتا ہے اور سماج کا ریشنل تھنکنگ کا لیول کم ہوتا ہے
ہمارے دماغ کا ایک حصہ ریشنل تھنکنگ کو کنٹرول کرتا  ہے اور ایک دوسرا حصہ جس کا نام امیگڈولا ہے وہ ایموشنل معاملات اور  ردعمل کو کنٹرول کرتا ہے ۔ ہمارا ایموشنل دماغ  کاری ایکشن ٹائم بہت کم ہے اورجب ایکٹیو ہوتا  ہے تو ریشنل دماغ پر حاوی ہوتا ہے جیسا کہ انتہائی خوف کی حالت  میں ہم ساکن ہو جاتے ہیں اور اپنے بچاؤ کی کوشش بھی ترک کر دیتے  ہیں جسے امیگڈولا ہائ جیک کہا   جاتا ہے
خوف اور نفرت کی حالت میں امیگڈولا
ایکٹو  ہو جاتا ہے اور ہمارا کنٹرول حاصل کر لیتا ہے اور نیشنل تھینکنگ پر غالب آجاتا ہے اور اگر یہ اسٹیٹس مستقل رہے تو اس کے شدید نقصانات ہوتے ہیں ۔
 مسلسل خوف اور نفر ت سے توہم پرستی اور  ذہنی پس ماندگی بڑھتی ہے  اور ہماری حالت جانوروں کی ذہنی حالت کے قریب تر ہو جاتی ہے ۔ اور معاشرہ زوال پذیر ہو جاتا ہے۔
 ہم ایک جدید فلاحی ریاست اور e-government کے لیے جدوجہد کریں گے ۔ ایک جدید فلاحی ریاست کا مقصد بروقت اور موقع پر خدمت ہے ۔ ہم مندرجہ ذیل مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کی خواہاں ہے ہمارا مقصد عوام کو ان کے گھروں پر مندرجہ ذیل سہولیات مہیا کرنا ہے۔
1. انصاف
2. تعلیم
3. صحت
4. روزگار
5. ماحول / پانی

 

 انصاف

           ہمارے موجودہ انصاف کے نظام کے تحت غریب عوام اور مظلوم عوام کا دہراستحصال ہوتا ہے ایک تو وہ ظالم کی طرف سے ظلم کا شکار ہوتے ہیں اور اس کے بعد ہمارا انصاف کا نظام ان کو انصاف دینے کے بجائے انہیں ذلیل و خوار کرتا ہے یہاں تک کے مظلوم ہار مان کر صلح کرلیتا ہے یا خود کشی کرلیتا ہے یا خود مجرم بن جاتا ہے ۔ ہمارا عدالتی نظام مجرم کو تحفظ دینے کے عمل کو سپورٹ کرتا ہے اور تاخیری حربوں سے مظلوم کو دلبرداشتہ کیا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر انصاف نہ دینے کے مترادف ہے۔ ہمارا انصاف کا نظام حقائق کے برعکس جھوٹی گواہیوں پر فیصلے دیتا ہے۔ اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ انصاف جلداز جلد اور موقع پر فراہم کیا جائے گا۔ مدعی کو تھانے نہیں جانا پڑے گا پولیس موقع پر ہی تفتیش کرے گی اور ساتھ روز کے اندر چلان جمع کروانے کی پابند ہوگی ۔ ابتدائی عدالت بھی موقع پر ہی کیس کو سنے گی اور سات روز کے اندر موقع پر فیصلے کریں گی۔

تعلیم

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ تعلیمی نظام اچھے شہری نہیں بنا رہا اور نہ ہی یہ بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کر رہا ہے ۔ نمبر حاصل کرنے کی دوڑ ، ر ٹا ازم اور سرمایہ دارانہ نظام نے ہمارے تعلیمی نظام کا برا حال کر دیا ہے جس سے کسی اچھائی کی امید نہیں۔ بچے کو ابتدائی تعلیم اس کی مادری زبان میں دی جائے گی اس کو اس کے کلچر اور بنیاد سے آگاہ کیا جائے گا ۔ اس میں تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے گا۔ بچے کو ابتدائی تعلیم اس کے گھر یا نزدیک ترین گھر جہاں انٹرنیٹ ہوگا وہاں دی جائے گی ۔ اور ماں باپ اور بچوں کو دور دراز سکولوں میں بچے بھیجنے کی اذیت سے نجات ملے گی۔ کھیل اور دیگر سرگرمیوں کے لیے نئی تعمیرات کی جائیں گی اور بچوں کو اس کے مناسب موقع فراہم کیے جائیں گے۔ اور بچے کو اس کی صلاحیتوں کے مطابق رہنمائی کی جائیگی اور ماں باپ کی بھی اس سلسلے میں رہنمائی کی جائے گی۔

صحت

سرمایہ دارانہ نظام نے اور ریاست کی عدم دلچسپی نے ہمارے صحت کے نظام کا بھی بیڑا غرق کر دیا ہے۔ پرائیویٹ ہسپتالوں اور پیسہ کمانے کے لالچ نے اس مقدس پیشے کو بد نام کر دیا ہے پرائیویٹ ہسپتال کاروباری ادارے بن گئے ہیں ۔ جہاں مریضوں کی صحت کا خیال رکھنے کے بجائے ان کی جیب خالی کرنے کے نت نئے طریقے ڈھونڈھے جاتے ہیں۔ ایک فلاحی ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی صحت کے مسائل پر خصوصی توجہ دے اور ان کے صحت کے بارے میں ہر ممکن قدم اٹھائے۔ 1122 کی طرز پر ایک سروس بنائی جائے گی جو مریض کے گھر پر جائے گی اور ابتدائی انوسٹی گیشن کرے گی اور ضروری ٹیسٹ لینے کے بعد ڈاکٹر اس کو دوائی تجویز کرے گا یا دوسرے ڈاکٹر کی طرف بھیجے گا

روزگار

جدید ٹیکنالوجی نے اب بہت حد تک یہ ممکن بنا دیا ہے کہ لوگ گھر بیٹھ کر ہی ڈیوٹی دے سکتے ہیں اور ان کو ان کے گھروں میں ہی روزگار دیا جا سکتا ہے اس بنا پر لوگوں کو ان کے گھروں میں روزگار فراہم کیا جائے گا گھر کے نزدیک ممکن نہ ہوگا تو ان کے نزدیک ترین روزگار فراہم کیا جائے گا۔ہم اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے حکومت میں آنے کا انتظار نہیں کر رہے بلکہ ہم ان مقصد پر اپنی حیثیت کے مطابق کام شروع کر دیا ہے۔ اس کی مثال استاد آن لائن کا پرجیکٹ شروع کیا ہے۔ جس کے ذریعے کاریگر حضرات اپنے گاہکوں سے رابطہ کر سکتے ہیں اور گھر بیٹھے ان کو کام کے آرڈر مل جاتے ہیں ۔ جب بھی کسی کو کاریگر کی ضرورت ہو گی جیسا کہ پلمبر یا میکینک وغیرہ تو وہ استاد آن لائن www.ustad.online کی ایپ پر کلک کرے گا اور اس کا رابطہ نزدیک ترین کاریگر سے ہو جائے گا۔ اسی طرح ہم معلومات فراہم کرنے کے لیے ایک اور پروجیکٹ شروع کیا ہے جس کا نام روشنی آن لائن ہے جہاں ہر کوئی سرکاری اداروں، قانون انصاف ، صحت ، تعلیم اور اپنے حقوق کے بارے میں معلومات لے سکتا ہے۔ جس کسی کو بھی کوئی معلومات چاہیے ہوگی وہ روشنی آن لائن www.roshni.online کی ایپ کو کلک کرے گا اور متعلقہ پروفیشنل سے معلومات حاصل کرسکے گا۔

ماحول / پانی

جس طرح دن بدن ہمارے ماحول، گراؤنڈ اور واٹر کی صورتحال ابتر ہوتی جا رہی ہے اور نہری پانی کی کمی ہوتی جارہی ہے ہمیں اپنے بچوں کی زندگی خطرے میں نظر آ رہی ہے اگر ہم نے کچھ نہ کیا تو ہماری اگلی نسل پانی کی خاطر ایک دوسرے کے گلے کاٹتے نظر آئے گی اور ہمیں کبھی معاف نہ کرے گی ہم ماحول اور پانی کے مسائل کے بارے میں ترجیحی بنیادوں پر کام کریں گے اور لوگوں کو ان کے گھروں پر صاف پانی فراہم کرنے کا انتظام کریں گے