علامہ اقبال کے نوّے بہترین اشعار

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خا کی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

خدا      اگر  دل فطرت   شناس دے تجھ کو

سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

مر ی سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر

 نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پو چھے بتا تیر ی رضا کیا ہے

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں

ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

عقابی روح جب بیدار ہو تی ہے جوانوں میں

نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

آنکھ کو بیدار کر دے وعدہ دیدار سے

زندہ کر دے دل کو سوز جوہر و گفتار سے

تو میرے رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ

تیرے پیمانے میں ہے ماہ وتمام اے ساقی

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے

مو من کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی

تو اسے پیمانہ امروزو فرد اسے نہ ناپ

میرا تریق امیری نہیں فقیری ہے

خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

تم بھی اے بادِ مخالف سے نہ گبھرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا  اڑانے کے لئے

خودی میں ڈوب جا غافل ، یہ سر زندگانی ہے

نِکل کر حلقہ شام و سحر سے جاودان ہو جا

خدا   اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو

سکوں تہ لالہ گل سے کلام پیدا کر

حیا نَہیں ہے زَمانے کی آنکھ میں باقی

خدا کرے جوانی تیری رہے بے داغ

یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی

کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام بادشاہی

دِل سے جو بات نِکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

ہر اِک مقام سے آگے مقام ہے تیرا

حیات ذوقِ سفر کے سِوا کچھ بھی نہیں

سوداگری نہیں ، یہ عبادت خدا کی ہے

اے بے خبر ! جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے

پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو

جو مشکل ہے تو اس مشکل کو آساں کر کے چھوڑوں گا

تیری نگاہ میں ثابت نہیں خُدا کا وجود

میری نگاہ میں ثابت نہیں وجود تیرا

وجود کیا ہے فقط جوہرِ خودی کی نمود

کر اپنی فِکر کہ جوہر ہے بے نمود تیرا

مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی

میری سرشت میں ہے پاکی و درخشانی

تو اے مسافر شب خود چراغ بن اپنا

کر اپنی رات کو داغ جگر سے نورانی

یَقیں محکم، عَمل پیہم، مُحبّت فَاتحِ عالم

جہادِ زِندگانی میں ہیں، یہ مَردوں کی شَمشیریں

بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھِلتا

روشن شررِ تیشہ سے ہے خانہء فرہاد

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا

نِگاہِ مردِمومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

نشہ پلا کے گِراناتو سب کو آتا ہے

مزا تو جب ہے کہ گِرتوں کو تھام لے ساقی

پرواز ہے دونوں کی اِسی ایک فضّا میں

کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

ڈھونڈتا   پھرتا  ہوں میں اقبال ؔاپنے آپ کو

آپ ہی گویا مُسافر آپ ہی منزل ہوں میں

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

اُس قوم کو شمشیر کی حاجت نہی رہتی

ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد

الفاظ و معاني ميں تفاوت نہيں ليکن

ملا کي اذاں اور مجاہد کي اذاں اور

تٌو رازِ کٌن فِکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا

خودی کا رازداں ہو جا خٌدا کا ترجماں ہو جا

دِل میں خُدا کا ہونا لازم ہے اقبال

سجدوں میں پڑے رہنے سے جنّت نہیں مِلتی

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر

ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی

کھول آنکھ ، زمیں دیکھ،فلک دیکھ، فِضا دیکھ

مشرق سے نِکلتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

پھُول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جِگر

مردِناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر

گزر جاعقل سے آگے کہ یہ نور

چراغ راہ ہے ، منزل نہیں ہے

جوانوں کو مری آہ سحر دے

پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پردے

بڑا کریم ہے اقبال بے نوا لیکن

عطائے شعلہ کے سوا کچھ اور نہیں

خدا سے پھر وہی قلب و نظر مانگ

نہیں ممکن امیری بے فقیری

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا

حیات ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں

خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے

نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو

چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو

یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو ، خم بھی نہ ہو

بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو ،، تم بھی نہ ہو

ملت کے ساتھ رابطہ ء استوار رکھ

پیوستہ رہ شجر سے ، امید بہار رکھ

تمنا آبرو کی ہو اگر گلزار ہستی میں

تو کانٹوں میں الجھ کر زندگی کرنے کی خو کر لے

عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام

اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں

اقبال ! کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے

رومی فنا ہوا ، حبشی کو دوام ہے

جس کا عمل ہے بے غرض ، اس کی جزا کچھ اور ہے

حور و خیام سے گزر ، بادہ و جام سے گزر

اثر کرے نہ کرے،،، سن تو لے مری فریاد

نہیں ہے داد کا طالب یہ بندہ ء آزاد

خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی

یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سلطانی

تو ابھی رہ گزر میں ہے، قید مقام سے گزر

مصر و حجاز سے گزر ، پارس وشام سے گزر

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا پہ کرتا ہے بھروسا

مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

سوچا بھی ہے اے مرد مسلمان کبھی تو نے

کیا چیز ہے فولاد کی شمشیر جگردار

زندگانی ہے صدَف ، قطرہ نیساں ہے خو دی

وہ صدَف کیا کہ جو قطرے کو گہرا کر نہ سکے

یہ ذکر نیم شبی، یہ مراقبے ، یہ سرور

تری خودی کے نگبہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے

سر آدم ہے ، ضمیر کن فکاں ہے زندگی

خودی کی یہ ہےمنزل اولیں

مسافر ! یہ تیرا نشیمن نہیں

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نا زن

کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے

سر آدم ہے ، ضمیر کن فکاں ہے زندگی

خودی کی یہ ہےمنزل اولیں

مسافر ! یہ تیرا نشیمن نہیں

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں

خرد نے کہ بھی دیا  “لاالہ ” تو کیا حاصل

دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں

جھپٹنا ،، پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا

لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضامیں

کر گس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

پھرا فضائوں میں کر گس اگرچہ شاہیں وار

شکارِ زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا

عقابی شان سے جھپٹےتھے جو بے بال و پر نکلے

ستارے شام کے خونِ شفَق میں ڈوب کر نکلے

چیتے کا جگر چاہیے،،،شاہیں کا تجتس

جی سکتے ہیں بے روشنیِ دانش و فرہنگ

شکایت ہے مجھے یا رب ! خداوندانِ مکتب سے

سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کر گسوں میں

اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ ر و رسمِ شاہبازی

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

فقیران حرم کے ہاتھ اقبال آگیا کیونکر

میسر میر و سلطان کو نہیں شاہین کو فوری

گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ بیاباں میں

کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی

اے طائر ہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو واز میں کوتاہی

نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی

نشیمن سیکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں

عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں

کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے

باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں

کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر

تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا

میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں

اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں

تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ

نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے

مزا تو تب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی

ترا جوہر ہے نوری، پاکَ ہے تو

فروغ دیدہ افلاکَ ہے تو

ترے صیدِ زبوں افرشتہ و حور

کہ شاہین شہ لولاک ہے تو

ترا اندیشہ افلاکی نہیں ہے

تری پرواز لولاکی نہیں ہے

یہ مانا اصل شاہینی ہے تیری

تیری آنکھوں میں بے باکی نہیں ہے

 

مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو

پلا کے مجھ کو مےلاالٰہ الاہو

نہ مے نہ شعر نہ ساقی نہ شور چنگ و رباب

سکوت کوہ و لب جو و لالۂ خود رو

دل مردہ دل نہيں ہے،اسے زندہ کر دوبارہ

کہ يہي ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ

ترا بحر پر سکوں ہے، يہ سکوں ہے يا فسوں ہے؟

نہ نہنگ ہے، نہ طوفاں، نہ خرابي کنارہ

 

منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر

مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر

ہر شیشہ ٹوٹ جاتا ہے پتھر کی چوٹ سے

پتھر ہی ٹوٹ جائے جس سے وہ شیشہ تلاش کر

سجدوں سے تیرے کیا ہوا صدیاں گزر گئیں

دنیا تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر